ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ331۔333
112۔ تاج محل
''اک شنہشاہ نے دولت کا سہارا
لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق''
ساحر لدھیانوی
٭٭٭٭
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
کون کہتا ہے غریبوں کا اڑایا ہے مذاق
وہ کسی اور کی تضحیک کرے گا کیسے
جو کہ بے چارا ہو خود کشتِئ پیکانِ
فراق
جس کے ارمان لٹے ، جس کی امیدیں ٹوٹیں
جس کے گلشن کا حسیں پھول اجل نے توڑا
موت کے سامنے جو بے بس و لاچار ہوا
جس کے ساتھی نے بھری دنیا میں تنہا
چھوڑا
جس کا ہمدرد نہ مونس نہ کوئی ہمدم تھا
ایسے بے مایہ تہی دست سے جلتے کیوں
ہو
اُس کی ہستی تو کسی رشک کے قابل ہی
نہ تھی
یونہی ان کانٹوں بھری راہوں پہ چلتے
کیوں ہو
عمر بھر اُس کو تو تسکین کی دولت نہ
ملی
یوں تو کہنے کو اسے کہتے ہیں سب شاہِ
جہاں
اُس کے اندر بھی کبھی جھانک کے دیکھا
تم نے
اُس کی دنیا تھی کہ رِستے ہوئے زخموں
کا جہاں
جب زمانے میں نہ اُس کو کوئی غمخوار
ملا
اُس نے مرمر کو ہی ہمراز بنانا چاہا
اہلِ دنیا سے نہ جب اُس نے محبت پائی
اُس نے پھر گمشدہ چاہت کو ہی پانا چاہا
تھا یہ تنہائی کا احساس ہی اُس کے جس
نے
سنگِ مرمر کا حسیں ڈھیر لگا ڈالا تھا
ناگ تنہائی کے ڈستے رہے اُس کو آ کر
وہ کہ جو پیار کا شیدائی تھا دِل والا
تھا
اصل شے جذبہ ہے ، گو وہ کسی سانچے میں
ڈھلے
تاج کیا ہے؟ یہ فقط پیار کا اظہار تو
ہے
سنگِ مرمر کی زباں میں یہ کہا تھا اُس
نے
تو نہیں آج مگر زندہ تیرا پیار تو ہے
تاج اِک جذبہ ہے پھر جذبے سے نفرت کیسی
یاں تو ہر دل میں کئی تاج محل ہیں موجود
تاج اِک سوئے ہوئے پیار کا ہی نام نہیں
یہ وہ دنیا ہے نہیں جس کی فضائیں محدود
تاج اِک ماں کی محبت ہے بہن کا دل بھی
باپ کا بیٹے کا، بھائی کا حسیں پیار
بھی ہے
تاج اک دوست کا بے لوث پیامِ اخلاص
تاج عاشق بھی ہے، معشوق بھی دلدار بھی
ہے
اس سے بڑھ کر بھی حسیں ہوتے ہیں شہکار
یہاں
تاج کو دیکھ کے تو اے دِل مضطر نہ مچل
ماں کے دل سے تو ہمیشہ یہ صدا آتی ہے
میرے بچے پہ ہوں قربان کئی تاج محل
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م
صاحبہ سملہا اللہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں