صفحات

جمعرات، 26 مئی، 2016

9۔ حالات قادیان دارالامان

بخار دل صفحہ32۔37

9۔ حالات قادیان دارالامان


مرحبا! دارالامانِ قادیاں
مرحبا! جنت نِشانِ قادیاں

کُھب گئی دِل میں ہر اِک اُس کی اَدا
بس گئی آنکھوں میں شانِ قادیاں

چرخِ چارم اور ثُریّا کے رقیب
ہیں زمین و آسمانِ قادیاں

گلشنِ احمدؐ میں آئی ہے بہار
ہے مہکتا بوستانِ قادیاں

کوچۂ دلدار و دلبر ہے یہی
آؤ اے گُم گُشتگانِ قادیاں

توتیائے چشمِ عالم بن گئی
خاکِ پائے ساکنانِ قادیاں

آفتابِ حشر کی ہوگا پناہ
روزِ محشر سائبانِ قادیاں

دیکھنا چاہو جو دنیا میں بہشت
دیکھ لو باغِ جنانِ قادیاں

بیعت
طے کرا دیتی ہے سب راہِ سلوک
بیعتِ پیرِ مُغانِ قادیاں

جائے ہجرت
ہجرتیں کر کر کے جاتے ہیں وہاں
عاشِقاں و شائقانِ قادیاں

بی۔اے، ایم۔اے اور فاضِل مولوی
بن گئے اب ساکِنانِ قادیاں

شور و شر سے دہر کے بھاگے وہاں
بھا گیا امن و اَمانِ قادیاں

جی نہیں لگتا کہیں اُس کا کبھی
دیکھ لے جو آن بانِ قادیاں

زخمِ دشمن سے ہی پوچھا چاہیے
تیزئ تیغ و سِنانِ قادیاں

آبِ حیواں کو کہاں چکھتے ہیں وہ
جو کہ ہیں تِشنہ لَبانِ قادیاں

اہلِ قادیاں
دِل کو کر دیتے ہیں محو یادِ حق
نغمہ ہائے بُلبُلانِ قادیاں

جاں نِثارِ دینِ احمدؐ ہیں سبھی
جتنے ہیں مرد و زَنانِ قادیاں

عشقِ مولا میں ہر اک رنگین ہے
جو بھی ہے پِیر و جوانِ قادیاں

صِدق اور اِخلاص اور ہر دم دعا
ہے نِشانِ مومِنانِ قادیاں

دوستی ﷲِ پاؤ گے یہیں
بے رِیا ہیں مُخلِصانِ قادیاں

مُشتری کا فائدہ مدِّنَظَر
رکھتے ہیں سب تاجِرانِ قادیاں

دیکھنا، یورپ میں جا گُونجی کہاں
واہ کیا کہنے اذانِ قادیاں

مرحبا تسخیرِ مغرِب کے لئے
نکلے ہیں کچھ خالِدانِ قادیاں

بہشتی مقبرہ
کیا مبارَک ہے بہشتی مقبرہ
سو رہے ہیں عاشِقانِ قادیاں

جاں فِدا کر دوں مزار یارِ پر
گوہر شب تاب کانِ قادیاں

یعنی وہ جو چودھویں کے چاند تھے
مہدئ آخر زمانِ قادیاں

وارِثِ تختِ شہنشاہِ رُسُل
مُورِثِ نسلِ شہانِ قادیاں

کر گئے تسخیر عالَم کے قُلوب
سَروَرِ خوباں و جانِ قادیاں

لنگر
اُن کے لنگر کا ذرا دیکھو مزا
آسمانی ہے یہ نانِ قادیاں

نِعمتِ اِیماں مئے عرفاں مِلے
عرش سے اُترا ہے خوانِ قادیاں

اخبارات
آٹھ دس اخبار بھی جاری ہیں واں
ہیں وہی تو اَرمَغانِ قادیاں

ریویو، تَشحیذ، الفضل و حَکَم
درحقیقت ہیں زبانِ قادیاں

نُور و فاروق و اَتالیقِ و رَفیق
یہ بھی ہیں سب مُخبرانِ قادیاں

قابلِ دِید مقامات
بورڈنگ اور ہال اور ہائی سکول
خوب دکھلاتے ہیں شانِ قادیاں

دارِ فضل و رحمت و دارالعلوم
کہہ رہے ہیں داستانِ قادیاں

بیت نُور و شفاخانہ جدید
اور ضعیفوں کا مکانِ قادیاں

ہیں ثمر یہ اُن کی کوشش کے جنہیں
کہتے ہیں سب ''نانا1؎ جانِ'' قادیاں

مدرسہ احمدیہ
احمدیہ مدرسہ جو ہے وہاں
زیرِ نظمِ فاضِلانِ قادیاں

قوم کے لڑکے ہیں اس میں سیکھتے
عِلم و خُلقِ عارِفانِ قادیاں

ایک دن دنیا کو یہ زیر و زَبَر
کر کے چھوڑیں گے یَلانِ قادیاں

بیت مبارک
یار کے کوچے کی بیت کی نہ پوچھ
مرکز و جائے امانِ قادیاں

''سب مبارک کام ہیں اس میں جو ہوں''
کہہ گئے شاہِ جہانِ قادیاں

جلسہ سالانہ
جلسۂ سالانہ پر آؤ ذرا
اے گروہِ دشمنانِ قادیاں

رونقِ ارضِ حرم خود دیکھ لو
اور خود سن لو بَیانِ قادیاں

آپ سے کہہ دے گی آتے ہی یہاں
قادیاں خود داستانِ قادیاں

مینارۃ المسیح
دیکھ وہ مینار ہے اے راہرو!
رہنمائے آستانِ قادیاں

بیت اقصیٰ میں پہنچا دے گا یہ
تا دکھائے بوستانِ قادیاں

درسِ قرآن حضرت خلیفۃالمسیح الثانی
درسِ قرآں ہو رہا ہو گا وہاں
جمع ہوں گے مخلِصانِ قادیاں

اک جواں2؎ کو پائے گا اُن میں کھڑا
ہے وہی رُوح و روانِ قادیاں

یادگارِ صاحبِ کسرِ صلیب
نورِ چشمِ دلستانِ قادیاں

مصلحِ موعود محبوبِ خدا
خضرِ راہِ سالکانِ قادیاں

جانشینِ حضرتِ احمدؐ نبی
نائبِ صاحبقرانِ قادیاں

عرض کرنا ان سے یوں بعد از سلام
اے چراغِ خاندانِ قادیاں

آپ نے جس طرح قائم کر دیے
عزّت و نام و نشانِ قادیاں

حق تعالیٰ بھی تمہیں دائم رکھے
برسرِ وابستگانِ قادیاں

اور کہیں آمین سب مل کر وہاں
جتنے ہوں صاحبدلان قادیاں

قادیان گائیڈ 113 مطبوعہ نومبر 1920ء

الفضل 21اکتوبر 1920ء کی اشاعت میں اس نظم میں درجِ ذیل اشعار بھی شامل ہیں۔

پُھک رہاہے ایک عاشق ہجر میں
دِل میں ہے حُبِّ نہانِ قادیاں

جی نہیں لگتا کہیں اس کا ذرا
جب سے دیکھی آن بانِ قادیاں

یہ دعا فرمائیے لائے خدا
جلد اس کو درمیانِ قادیاں

یار کے قدموں میں نکلے اس کا دم
اور بنے مدفن جنانِ قادیاں

1 حضرت میر ناصر نواب سے مراد ہے۔     2 یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں