بخار
دل صفحہ52۔54
13۔ تودیع حضرت خلیفۃ المسیح ثانی برموقع سفر یورپ ۔از جانب اہل
قادیان دار الامان
اے شہِ لَولاک کے لَختِ جگر!
اور ہماری آنکھ کے نورِ نظر
اے کہ تُم ہو جان و دِل روحِ رواں
چھوڑ کر ہم کو چلے ہو خود کدھر
ہم نہیں واقِف فِراقِ یار سے
ہجر کے دن کس طرح ہوں گے بسر
دِل پھٹے جاتے ہیں سب احباب کے
دیکھ کر تیارئ رَختِ سفر
حال اپنا کیا بتائیں آپ کو
کیا دکھائیں کھول کر قلب و جگر
کاش خاموشی ذرا ہوتی فصیح
کاش رکھتیں کچھ اثر چَشمانِ تر
کاش سوزِ اَندروں دیتا دھواں
کاش دُودِ آہ آ سکتا نظر
کاش آدم زاد ہوتا غیب داں
کاش دِل کو دِل کی کچھ ہوتی خبر
کاش ہوتے ہِجر کے درد آشنا
وصل میں جن کی کٹی شام و سحر
آہ کیا جانیں وہ حالِ عاشِقی
شانِ محبوبی میں جن کی ہو بسر
لیک مرضی حق کی جب دیکھی یہی
کر لیا ہم نے بھی پتّھر کا جگر
آپ کے دِل پر بھی ہے فرمائیے
کیا جدائی کا ہماری کچھ اثر؟
سروِ سِیمینا! بدریا مَے رَوی
نیک بے مہری! کہ بے مامے روی
سلسلے کے پیشرو ، مرکز کی جاں
جانشینِ مہدئ آخر زَماں
جا رہے ہیں سوئے یورپ اس لئے
تاکہ پورے ہوں مسیحا کے نِشاں
مِنبرِ لندن پہ پکڑیں کچھ طیور
اور مَنارِ مشرقی پر دیں اذاں
مشرق و مغرب کو کر دیں مُتَّحِد
اَسوَد و اَحمر کو کر دیں ایک جاں
مُنضَبِط تبلیغ کا کر دیں نِظام
تا نہ ہو محنت ہماری رائیگاں
کچھ کریں لینے کا ان کے بندوبست
زار کا سونٹا ۔ بُخارا کی کماں
حَبَّذا اے اہلِ یورپ حَبَّذا
میزباں آتا ہے بن کر میہماں
تِشنہ آتا ہے کوئیں کے پاس خود
یاں پیاسے پاس جاتا ہے کنواں
تیرے جذبِ حق سے اے فضلِ عمر
ایک دنیا آ رہی ہے قادیاں
اے تماشا گاہِ عالَم روئے تُو
تو کُجا بہرِ تماشا مے رَوی
فی اَمانِ اللہ اے پیارے امام
حَسبُکَ اللہ اسے شہِ والا مقام
تِشنہ لَب ہیں اہلِ مغرب دین کے
مَعرِفت کا جا پِلاؤ اُن کو جام
اُٹھو اُٹھو اے بنی فارس! اُٹھو
کام یہ ہو گا تُم ہی سے اِنصِرام
گاڑ دو جا کر َعلَم توحید کا
قصر تثلیثی کا کر کے اِنہِدام
حق تعالیٰ کی حِفاظت ساتھ ہو
اور ملائک کا رہے سایہ مُدام
نصرتیں اللہ کی ہوں ہم رِکاب
اور زیادہ ہو عُروج و اِحترام
بحر و بر کے ہر سفر میں آپ کے
خِضر راہ ہوں حضرتِ خیرُالاَنامؐ
ہو دعائیں احمدِ مرسَل کی ساتھ
اِستجابت کا جنہیں وعدہ تھا عام
کامیابی ہر جگہ ہو ہم قَریں
عافِیَت سے ہو سفر کا اِختتام
کر دیا اللہ کے تُم کو سپرد
ہو وہی حافظ تمہارا ۔ والسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سفر احباب پر ہوں رحمتیں
دست و بازو ہیں جو شہ کے لاکلام
کر لیا کرنا کبھی ہم کو بھی یاد
ہیں پرانے ہم بھی اُس در کے غلام
کچھ توجہ خاص ہو خُدّام پر
اور دعا کا بھی رہے کچھ اِلتزام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی حالت ہے دِگرگوں آج کل
ہے ہُجوم غم کا دِل پر اِژدہام
گو حیا سے منہ پہ کچھ لائیں نہ ہم
پر نہیں اس بات میں ذرّہ کلام
دیدئہ عُشاق و دِل ہمراہِ تُست
تا نہ پِنداری کہ تنہا مَے روی
سفرِ یورپ کی روانگی کے موقعہ پر
12جولائی 1924ء کو جبکہ بیت اقصیٰ میں ایک کثیر مجمع کے ساتھ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی
اور آپ کے رفقائے سفر کا فوٹو لیا گیا۔ یہ نظم اُس وقت حضور کے روبرو سنائی گئی تھی۔
اور 15جولائی 1924ء کے الفضل میں شائع ہوئی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں