صفحات

ہفتہ، 31 دسمبر، 2016

8۔ درویشانِ قادیان

کلامِ مختار ؔ

درویشانِ قادیان


جو قادیان کو مسکن بنائے بیٹھے ہیں
وہ اپنے خون میں گویا نہائے بیٹھے ہیں

یہ داروگیر ،یہ ہنگامہ ہائے غارت وقتل
مگر وفا انہیں لائی ہے آئے بیٹھے ہیں

نہ ہمنوا ہے نہ ہمدرد کوئی کوسوں تک
جو گردوپیش ہیں سب خار کھائے بیٹھے ہیں

محافظیں ہوں یا ساکنینِ قرب وجوار
سب ان کے قتل کا بیڑا اٹھا ئے بیٹھے ہیں

جہاں یقینِ ہلاکت ہو کون جاتا ہے
یہ حوصلہ ہے انہیں کاکہ آ ئے بیٹھے ہیں

طرح طرح کے حوادث سے ہورہے ہیں دوچار
طرح طرح کے مصائب اٹھا ئے بیٹھے ہیں

جلا وطن ہوئے لاکھوں ہی جبرِ اعداء سے
یہ سن کے حلقۂ اعداء میں آ ئے بیٹھے ہیں

بٹھائیں لاکھ نہ بیٹھی کسی کی دھاک ان پر
کہ یہ تو جان سے بھی ہاتھ اٹھا ئے بیٹھے ہیں

نہ موت کا کوئی کھٹکا نہ زیست کی پروا
کہ موت و زیست کا جھگڑا چکا ئے بیٹھے ہیں

لگے ہوئے ہیں مٹانے پہ ان کے اہلِ زمیں
یہ آسمان سے آنکھیں لگا ئے بیٹھے ہیں

عدو نہال کہ محصور کرلیا ہے انھیں
یہ خوش کہ ہم درِجنت ہی آ ئے بیٹھے ہیں

جفائے غیر سے اُٹھ جائیں یہ معاذاللہ
مقدر اب انھیں جو کچھ دکھا ئے بیٹھے ہیں

انھیں تو ہے یہیں رہنا رہے کہ سر نہ رہے
جو پیش آنی ہے وہ پیش آ ئے بیٹھے ہیں

درِ حبیب سے اٹھے ہیں یہ نہ اٹھیں گے
اب اس میں جان بھی جائے تو جائے ،  بیٹھے ہیں

الگ تھلگ ہیں ۔کسی سے نہ لاگ ہے نہ لگاؤ
تو کس لئے انھیں کوئی اٹھا ئے ،بیٹھے ہیں

نہ ماسوا سے تمنا،نہ التجا نہ غرض
بس ایک ذات سے یہ لَو لگا ئے بیٹھے ہیں

اُسی سے مانگ رہے ہیں جو مانگنا ہے انہیں
کسی کی راہ میں آنکھیں بچھا ئے بیٹھے ہیں

درِ کریم سے پھرتا نہیں کوئی محروم
مرے کریم تیرے در پر آ ئے بیٹھے ہیں

ہمیشہ سایۂ  رحمت میں ہیں رہیں مختاؔر
جو قادیان کو مسکن بنا ئے بیٹھے ہیں

(حیات حضرت مختار صفحہ299-300)

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ


جمعہ، 30 دسمبر، 2016

9۔ نماز

کلامِ مختار ؔ

نماز


چند قلم برداشتہ اشعار جو حضرت حافظ صاحب نے مولانا محمد شریف صاحب سابق مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ بلاد عربیہ کی کتاب بعنوان"اسلام کی دوسری کتاب"کے لئے فی البدیہہ تحریر کئے۔یہ کتاب جو فلسفہ نما زپر مشتمل تھی ،شائع ہونے سے قبل حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں برائے نظر ثانی پبلشر صاحب خود لے کرحاضر ہوئے۔حضرت حافظ صاحب نے کتاب پر نظر ثانی بھی فرمائی اور یہ چند اشعار بھی کتاب میں شامل کرنے کے لیے عنایت فرمائے۔

اللہ کیا عجیب یہ نعمت نماز ہے
دنیا و دین میں باعثِ راحت نمازہے

حکمِ خدا یہ ہے کہ پڑھو مل کے پانچ وقت
افضل عبادتوں میں عبادت نماز ہے

پھریہ بھی حکم ہے کہ جماعت کے ساتھ ہو
اس طرح اور جاذبِ رحمت نمازہو

بہرِنمازِ جمعہ یہ ہو اہتمامِ خاص
سب جان لیں کہ وجہِ مسرّت نماز ہے

لازم ہے ذوق و شوق برائے نماز ِ عید
یہ مومنوں کی مظہرِ شوکت نماز ہے

جو ظلمتِ گناہ کو آنے نہ دے قریب
وہ نورِ حق ، وہ شمعِ ہدایت نماز ہے

بیمار کو مزہ نہیں ملتا طعام کا
دل صاف ہو تو موجبِ لذت نماز ہے

پھیلا ہوا ہے اس کا اثر دو جہان میں
جس کو نہیں زوال وہ دولت نماز ہے

اس کے سوا اب اور ذریعہ کوئی نہیں
قُربِ خدا کی ایک ہی صورت نمازہے

کافی ہے بہر امت عاصی بس اتنی بات
تسکینِ قلب شافع امت نماز ہے

صحت ہو یا مرض ہو حضر ہو کہ ہو سفر
مومن کی روح کے لئے فرحت نمازہے

لازم ہے یہ ادا ہو خشوع و خضوع سے
بے شبہ اِک وسیلۂ جنت نمازہے

جرم و سزا سے ہم کو بچاتی ہے روزو شب
فضلِ خدا سے دافعِ زحمت نمازہے

ظاہر ہے اس سے دوستو رُتبہ نماز کا
آرامِ جانِ ختمِ رسالت نماز ہے
(بحوالہ اسلام کی دوسری کتاب)

(الفضل انٹرنیشنل 03جولائی 1998)
(حیات حضرت مختار صفحہ 306-307)

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ


جمعرات، 29 دسمبر، 2016

10۔ الٰہی کیا کروں بتخانے پر بت خانہ آتا ہے

کلامِ مختار ؔ

10۔ الٰہی کیا کروں بتخانے پر بت خانہ آتا ہے


نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے
کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے

بڑی مشکل ہے وہ بھی منحرف ہیں دل بھی برگشتہ
نہ وہ آتے ہیں قابو میں نہ یہ دیوانہ آتا ہے

یہ میری خفتہ بختی خواب میں بھی وہ نہیں آتے
اورآتے ہیں تو یوں جیسے کوئی بیگا نہ آتا ہے

کہاں رکتا ہے ذکرِ بادۂ ومینا و ساغرسے
جہاں بھی واعظ آجائے وہیں میخا نہ آتا ہے

وہی کھنچنا،وہی ملنا،وہی چلنا،وہی رکنا
مگر خنجر کو بھی اندازِ معشوقا نہ آتا ہے

حرم کی راہ بھی خالی نہیں خطراتِ پیہم سے
الٰہی کیا کروں بتخانے پر بتخا نہ آتا ہے

مرے دل سے گئی ہے آرزو اُن کی نہ جائے گی
مگر میرا خیال اُن کونہ آئے گا نہ آتا ہے

زیارت گاہ بن بیٹھا ہے اُن کا دیکھنے والا
کہ اک عالم کا عالم روز مشتاقا نہ آتا ہے

فقط اس آس پر جیتا رہا میں ناتواں برسوں
کہ اک ساعت میں وہ مغرورمحجوبا نہ آتا ہے

یہ فیضِ خاص ہے مختاؔر ابنِ شاہِ مینا1 کا
کہ لب پر شعر بن کر نعرۂ مستا نہ آتا ہے

1۔اشارہ ہے حضرت  امیر  مینائی ؔمرحوم کی طرف

نوٹ ۔یہ نظم ماہنامہ "خالد"ربوہ میں ماہ تبلیغ 1348ھش (بمطابق فروری 1969ء)میں شائع ہو چکی ہے۔

(حیات حضرت مختار صفحہ 313-314)

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ


بدھ، 28 دسمبر، 2016

11۔ نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے

کلامِ مختار ؔ

11۔ نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے


مندرجہ ذیل اشعار اخبارات کے ایک پرانے ذخیرہ کی مدد سے اکٹھے کر کے مجلۃ الجامعہ شمارہ نمبر2مطبوعہ 1964ءمیں شائع کیے گئےاور آج ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے
کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے

نکل آیا ہے موقعہ آپ بیتی کیوں نہ کہہ ڈالوں
یہ پرسش ہو رہی ہے کیا کوئی افسانہ آتا ہے

بڑی مشکل ہے وہ بھی منحرف ہیں دل بھی برگشتہ
نہ وہ آتے ہیں قابو میں نہ یہ دیوانہ آتا ہے

کوئی وحشت زدہ کیا جانے آدابِ گلستاں کو
بجائے نغمہ لب پہ نعرۂ مستانہ آتا ہے

دل اُس در پرجو مچلا ہے تو اے مونس مچلنے دے
کہ دھن میں ہو تو قابو میں کہاں دیوانہ آتا ہے

یہ میری خفتہ بختی خواب میں بھی وہ نہیں آتے
اورآتے ہیں تو یوں جیسے کوئی بیگا نہ آتا ہے

کہاں رکتا ہے ذکرِ بادۂ ومینا و ساغرسے
جہاں بھی واعظ آتا ہےوہیں میخا نہ آتا ہے

سخن سازی یہ شوریدہ سرانِ عشق کیا جانیں
جو دل میں ہے وہی لب پر آزادانہ آتا ہے

سنا دیتا ہے ساری داستانِ شمع وپروانہ
جب اڑ کر سامنے کوئی پر پروانہ آتا ہے

مجھی سے وعدہ چشم عنایت بارہا ساقی
مرے ہی سامنے ٹوٹا ہوا پیمانہ آتا ہے

ملی یہ داد انھیں حالِ غم ِفرقت سنانے کی
کہ اس کم بخت کو بھی ہائے کیا افسا نہ آتا ہے

بڑی رنگینیاں ہیں یوں تو واعظ کی طبیعت میں
مگر منبر پہ آتا ہے تو معصوما نہ آتا ہے

وہی کھنچنا،وہی ملنا،وہی چلنا،وہی رکنا
مگر خنجر کو بھی اندازِ معشوقا نہ آتا ہے

مرے دل سے گئی ہے آرزو ان کی نہ جائے گی
مگر میرا خیال اُن کو نہ آئے گا نہ آتا ہے

حرم کی راہ بھی خالی نہیں خطراتِ پیہم سے
الٰہی کیا کروں بت خانے پر بتخا نہ آتا ہے

تیری دھن میں چلا ہے لے کے دل لاکھوں تمنائیں
بڑے پریوں کے جھرمٹ میں ترادیوا نہ آتا ہے

وہ میری اپنے دل سے گفتگو سن کر یہ بول اٹھے
کہ اس دیوانے کے پاس اوراک دیوانہ آتا ہے

زمانہ کروٹیں رہ رہ کے لیتا ہے تو لینے دو
مجھے انداز مایوساں نہ آئے گا نہ آتا ہے

وفورِ ضعف سےجنبش کی بھی طاقت کہاں لیکن
اچھل پڑتا ہوں جب ذکر مے ومیخا نہ آتا ہے

چلے آتے ہیں بے پر کی اڑاتے حضرتِ ناصح
 معاذاللہ میں سمجھا کوئی دیوا نہ آتا ہے

وہ وحشی ہوں کہ جائے سوئے ویرانہ بلا میری
جہاں بھی ایک" ہو" کہہ دوں وہیں ویرا نہ آتا ہے

یہ موجیں لے رہی ہیں زلفِ میگوں کس کے شانے پر
یہ کس کے ساتھ ساتھ اڑتا ہوا میخا نہ آتا ہے

نگاہِ دوربیں میں سرد ہے ہنگامۂ عالم
جدھر جاتا ہوں استقبال کو ویرا نہ آتا ہے

زیارت گاہ بن بیٹھا ہے اُن کا دیکھنے والا
کہ اک عالم کا عالم روز مشتاقا نہ آتا ہے

دل وارفتہ اپنی دھن سے باز آجائے ناممکن
جدھر آتا ہے آندھی کی طرح دیوا نہ آتا ہے

غضب تھی شرح غم،وہ سنگدل بھی سن کے بول اٹھا
اُسے آتا ہے افسوں جس کو یہ افسا نہ آتا ہے

نہ چھوڑے گا مجھے تو اے غم ہردوجہاں کب تک
ارے ہٹ جا خیال جلوۂ مستانہ آتا ہے

یہ حسرت لے گئی ہے مجھ کو سوبار ان کے کوچے میں
کہ وہ اک بار کہہ دیں مرا دیوا نہ آتا ہے

فقط اس آس پر جیتا رہا میں ناتواں برسوں
کہ اک ساعت میں وہ مغرورمحجوبا نہ آتا ہے

یہ فیضِ خاص ہے مختاؔر ابنِ شاہِ مینا1 کا
کہ لب پر شعر بن کر نعرۂ مستا نہ آتا ہے

1۔ حضرت  امیر  مینائی ؔ کی طرف اشارہ ہےجوحضرت حافظ صاحب کے شاعری میں استاد تھے۔

(حیات حضرت مختار صفحہ 315-318)

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ