کلامِ
مختار ؔ
22۔ قصیدہ در تہنیت عطائے خطاب خان بہادر
بمکرم ومحترم ذی شان عالی جناب عظمت مآب مولوی محمد
منسوب حسن صاحب سلمہ المنان
آج کیا ہے کہ کچھ اور ہی
رنگ ِگلزار
آج کیا ہے کہ ہے بدلا
اندازِ بہار
آج کیا ہے کہ خوشی پھرتی
ہے اترائی ہوئی
آج کیا ہے کہ ہوا رنج
زمانے سے فرار
آج کیا ہے کہ ہےاس درجہ
وفو رِراحت
آج کیا ہے کہ ہے عشاق کو
بھی صبر وقرار
آج کیا ہے کہ ہے آرام دلوں
کو حاصل
آج کیا ہے کہ ہے روحوں
کوتسلی وقرار
آج کیا ہے کہ نظر آتی ہیں
شکلیں بشاش
آج کیا ہے کہ مسرت سے ہیں
چہرے گلنار
آج کیا ہے کہ ہے اک اک روشن
آئینہ سان
آج کیا ہے کہ ہے نظروں سے
نہاں گردوغبار
آج کیا ہے کہ ہے سبزے کی
لہک روح افزا
آج کیا ہے کہ ہے مستانہ
صبا کی رفتار
آج کیا ہے کہ ہے یہ جوشِ
گل خندۂ گل
آج کیا ہے کہ ہے یوں زمزمہ
زن فوجِ ہزار
آج کیا ہے کہ ہے رقصاں بصد
انداز زمیں
آج کیا ہے کہ ہے اس گنبد
گردوں کو قرار
آج کیا ہے کہ جفا جوہیں
جفا سے روکش
آج کیا ہے کہ ستمگر ہیں
ستم سے بیزار
آج کیا ہے کہ ہے یہ عیش
وطرب کا سامان
آج کیا ہے کہ ہے یہ مجمع
خاصان وکبار
آج کیا ہے کہ ہیں اک نشے
میں سب پیرو جواں
آج کیا ہے کہ ہیں اک رنگ
میں سارے حُضّار
آج ہر شے میں ہےافزونی
رونق کیسی
سقف و بام ودردیوارہیں
کیوں پُر انوار
چہچہا اٹھتے ہیں کس جوش سے
مرغانِ چمن
کس لئے وجد میں ہیں صورت
صوفی اشجار
آج کیوں چھوٹ گیاگوشۂ خلوت
مجھ سے
آج کیوں ہوگئی تبدیل قدیمی
رفتار
صورت غنچہ کھلا جاتا
ہےکیوں دل میرا
کیا ہو اآج وہ انبوہ و
ہجوم افکار
مجھ سا آزاد کہاں اور یہ
ہنگامہ کہاں
لوگ کس طرح تعجب نہ کریں
سو سو بار
اب رخِ شاہدِ معنی سے
الٹتا ہوں نقاب
کہ بڑی دیر سے یاروں کو ہے
شوقِ دیدار
وہ جو ہیں میرےکرم گستر
باشوکت فر
وہ جو ہیں نیک سیر،وہ جو
ہیں فرخندہ شعار
وہ جو ہیں جان وفا،وہ جو
ہیں ایمان عطا
وہ جو ہیں کان سخا،وہ جو
ہیں سیلِ ایثار
وہ جو ہیں بحرِ کرم،معدنِ
فیضانِ اتم
وہ جو ہیں ماہ چشم،وہ جو
ہیں خورشید وقار
مخزن صدق و صفا و کرم و
جود ونوال
صاحب ِ عظمت و فیض و اثر و
عزو وقار
خوبیاں جب کی بیاں ہو نہیں
سکتیں ہر گز
جن کے اوصاف کا ممکن ہی
نہیں حصروشمار
سب سمجھتے ہیں کہ ہےروئے
سخن کس کی طرف
سب کو معلوم ہے منسوب ہے
حسن خاں کا وقار
کوئی تعریف کرے،کوئی سراہے ان کو
فی الحقیقت انہیں اسکی
نہیں حاجت زنہار
سب انہیں جانتے ہیں ،سب
انہیں پہچانتے ہیں
سب انہیں مانتے ہیں ،چشمۂ
فیض و ایثار
دوست رکھتے ہیں انہیں مسلم
و ہندو دونوں
مے اخلاص و محبت سے ہیں
دونوں سرشار
اکثر افراد کا اپنوں پہ
اثر ہوتا ہے
اُمراء ہوتے ہیں ہر شہر
میں ایسے دوچار
لیکن ان کا اثر اپنوں میں
ہی محدود نہیں
بلکہ ہے عامۃ الناس میں
حاصل یہ وقار
رائے عالی میں جو آجائے وہ
سب کو تسلیم
پھرکسی کو کوئی عذر نہ
کوئی انکار
آپ کے قول میں گو کیسی ہی
دقت ہو مگر
بسروچشم اسے منظور کریں
اہلِ دیار
آپ کی طرزِ تکلم ہے بلا کی
دلکش
کر سکے حکم سے کس طرح کوئی
پھر انکار
اور تو اور ہیں عاشق بھی
جو ایما پاجائے
اپنے معشوق کی صورت سے
معًا ہو بیزار
میرے دعوٰی کی صداقت کاہے
اک تازہ ثبوت
وہ دسہرہ جو محرم میں ہوا
ہے اس بار
آپ نے کام کیا ہے جو کچھ اس موقع پر
وہ کسی اور سے ہونا تھا
نہایت دشوار
طے کیا ایسی صفائی سے یہ
نازک قصہ
کہ فریقین تہِ دل سے ہوئے
شکر گزار
یہ انہیں کے اثر عام کی
تھی برکت خاص
کہ نہ بکھری کوئی تسبیح نہ
ٹوٹا زنّار
آج کل بااثر اس شان کا
انسان کہاں
جس کو حاصل ہو یہ اعزازیہ
عظمت یہ وقار
کوئی تعریف کرے کوئی سراہے
ان کو
فی الحقیقت انہیں اسکی
نہیں حاجت زنہار
حسنِ اخلاق اسے کہتے ہیں
اللہ اللہ
کہ جسے دیکھئے وہ آپ کا ہے
شکر گزار
میں کہ پُر گوئی میں آج آپ
ہی ہوں اپنی نظیر
میں کہ سحباؔں بھی مرے
سامنے ناواقف کار
میں کہ ہر شعر مرا ایک
مہکتا ہوا گل
میں کہ شرمندہ مری زمزمہ
سنجی سے ہزار
میں اک ابر گہر بار مرا
ذہن ِرسا
میں کہ اک بحر رواں یہ مری
طبع طرّار
میں کہ ہر سمت بپا میرے
کمالات کا شور
میں کہ ہر سو ہے مری دھوم
میان امصار
میں کہ آفاق میں تسلیم مری
یکتائی
میں کہ مجھ سا نہیں شیریں
سخن و خوش گفتار
میں کہ میرے فضائل کا
زمانہ قائل
میں کہ عالم کو مرے علم
وہنر کا اقرار
میں کہ ہوں ایک ہی فرزانہ
و دانا وادیب
میں کہ ہے میرے کمالوں کا
سمجھنا دشوار
میں کہ اک لفظ سے میرے دل
ِحاسدچورنگ
میں کہ شمشیر دودم میری
زبانِ طرّار
پھول جھڑتے ہیں مرے منھ سے
دم جوش سخن
چار باتوں میں کھلا سکتا
ہوں سولہ گلزار
میرے الفاظ درخشندہ و
تاباں کے حضور
ذکردرّ عدن و لعل بدخشاں
بیکار
طرفۃ العین میں لاتی ہے
مری فکر رسا
وہ مضامین جو ہوں چرخ کہن
کے اس پار
وہ مجھے سہل جو عرفؔی کو
نہایت مشکل
وہ مجھے سہل جو فیضؔی کو
بغایت دشوار
پوچھ دیکھے دل ؔو بیباؔک
سے جا کر کوئی
کہ مری شان میں کیا کہتے
ہیں وہ سحر نگار
لیکن اس پر بھی پکارے ہوئے
کہتا ہوں بفخر
مدح ممدوح کی مجھ میں نہیں
قدرت زنہار
اور باالفرض جو حاصل ہو یہ
قدرت بھی مجھے
تو یہ سو بات کی اک بات
کہوں گا سو بار
زلفِ محبوب کو مشاطہ کی
حاجت کیا ہے
حسنِ ذاتی ہو تو کیا شے ہے
بناؤ اور سنگار
الغرض مدح سرائی نہیں میرا
مقصود
بلکہ مطلوب ہے اک تازہ
خوشی کا اظہار
بارک اللہ کہ ممدوح نے
پایا ہے خطاب
ہوگئے "خان
بہادر"وہ خجستہ اطوار
خاندانی تو بہت عزوشرف تھا
لیکن
حسنِ ذاتی کا تقاضہ تھا
بڑھے اور وقار
ذاتِ عالی سے ہوئے یوں تو
بہت کارِرفاہ
اس قدر وقت کہاں ہے کہ جو
کروں انکا شمار
خاص کر میونسپلٹی کی جو
خدمت کی ہے
یہ گورنمنٹ کی جانب سے ہے
اُس کا اقرار
قدر دان دولتِ برطانیۂ
عظمیٰ سا
نہیں دیکھا نہیں دیکھا تہ
چرخ دوّار
حسن خدمات کا دیتی ہے صلہ
خوب سے خوب
کہ یہ دولت ہے بڑی نکتہ
شناس و ہشیار
اس حکومت کے تہ دل سے
دعاگو ہیں ہم
اس حکومت کے بڑے جوش سے
ہیں شکر گزار
اس سے بڑھ کر کوئی دولت
نہیں اب قدر شناس
اس سے بڑھ کر کوئی دولت
نہیں عادل زنہار
خان صاحب کو دیا خان بہادر
کاخطاب
مستحق اسکے حقیقت میں تھے
وہ کوہِ وقار
اس نوازش سے مسرت جو ہوئی
ہے ہم کو
ہم کریں کون سے الفاظ میں
اُس کا اظہار
اللہ اللہ یہ لطف و کرم
شاہانہ
ہم سے شکر اس کا ادا
ہونہیں سکتا زنہار
اشک افراط ِ مسرت سے امنڈ
آئے ہیں
وہ مسرت نہیں جس کاکوئی
پایان و شمار
یہی موتی ہیں جو نکلے ہیں
نچھاور کے لئے
اور کیا پاس غریبوں کے
بھلا بہر نثار
اب یہ لازم ہے کہ میں بہر
دعا ہاتھ اٹھاؤں
اور آمین پر آمین کہیں سب
حُضّار
اے وہ اللہ جو ہے رب ،مژدہ
ہزار عالم کا
اے وہ اللہ جو ہے رحمان و
رحیم و غفار
مالک الملک بھی ہے ۔مالک
یوم الدین بھی
اورسب عاجز و مجبور ہیں تو
ہے مختار
توغنی ہے ترے محتاج امراء
و روسا
تو ہے حاکم ترے محکوم
سلاطین ِکبار
التجائیں ہیں یہ تجھ سے،یہ
دعائیں تجھ سے
دم بہ دم خان بہادر کو
دکھا تازہ بہار
آج سے بڑھ کے ہو کل آپ کا
اقبال بلند
کل سے پرسوں ہو سوا دبدبہ
و عزووقار
پس و پیش آٹھ پہر جلوۂ شان
و شوکت
داہنے بائیں ہوں سامان طرب
کے انبار
روزوشب جام مے لطف کا چلتا
رہے دور
شاہد عیش سے ہمدوش رہیں لیل ونہار
لیکن اس پر بھی ترا نام
رہے وردِ زباں
دل تری یاد سے غافل نہ ہو
یارب زنہار
تیرے احکام کی تکمیل ہو
عین مقصود
بہرِ طاعت رہے ہر لحظہ
طبیعت تیار
کوئی صورت ہو مگر تیری
خوشی ہو مطلوب
کوئی حالت ہو مگر تیری رضا
ہو درکار
ہر گھڑی روبہ ترقی ہوں یہ
اوصافِ جمیل
تجھ سے ہو خاص تعلق ،تری
مخلوق سے پیار
اور بھی خاص ہو لطف و کرم
عام جناب
بحر مواج بنے چشمہ فیض و ایثار
(حیات حضرت مختار صفحہ322-326)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں