یہ
زندگی ہے ہماری۔ نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ23۔25
6۔ غم کا علاج دُکھ کا مداوا کرے
کوئی
غم کا علاج دُکھ کا مداوا کرے کوئی
جب خواب ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
سو سلسلے خیال کے سو رنگ خواب کے
کچھ سوچ کر کسی کی تمنّا کرے کوئی
بُجھتی نہیں ہے پیاس کہ جانے کہاں کی
ہے
پیاسی زمیں پہ ابر سا برسا کرے کوئی
آؤں جو ہوش میں تو مئے بے خودی وہ دے
گرنے لگوں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی
یارانِ جان و دل کو کوئی جمع پھر کرے
جو بھی ہو جس کا حال سنایا کرے کوئی
جب دل کو اشک و آہ کے ساماں نہ ہوں
بہَم
اس بے کسی میں یاد نہ آیا کرے کوئی
کیا ہیں یہ لوگ اپنے شجر آپ کاٹ کر
دیتے ہیں پھر دُہائی کہ سایہ کرے کوئی
جو تِیرہ بخت ہے نہیں کھلتی ہے اس کی
آنکھ
لاکھ آسماں سے روشنی لایا کرے کوئی
اس آدمی کے آپ مسیحا نہ ہوں اگر
کس میں ہے دم کہ اب اسے زندہ کرے کوئی
"ہے امن اس مکانِ محبت سرائے میں"
جب چاہے آئے شوق سے آیا کرے کوئی
وہ ہے طلسمِ خوابِ نظارہ کہ ایک بار
دیکھے اُسے تو بس اُسے دیکھا کرے کوئی
کر کے سپرد اک نگہہ ناز کو حیات
دنیا کو دین، دین کو دنیا کرے کوئی
چمکیں گے آسمانِ محبت پہ خود علیم
لفظوں کے ٹھیکروں کو ستارا کرے کوئی
1997ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں