کلامِ
مختار ؔ
13۔ مخمس برقصیدہ جناب منشی سید شکیل احمد
صاحب سہسوانی
(مطبوعہ الحکم 22دسمبر1898ءجلد2نمبر30
صفحہ 5۔6)
اللہ اللہ یہ کیا ظلم کیا
جاتا ہے
جو ہیں دیندار اُنہیں بے
دین کہا جاتا ہے
دل مسلمانوں کا اس غم سے
پھٹا جاتا ہے
دین احمد کا زمانہ سے مٹا
جاتا ہے
قہر ہے اے مرےاللہ یہ ہوتا
کیا ہے؟
جو کہ اسلام کے ہیں صبح و مسا خیر طلب
ہر طرح تابع فرمانِ
شہنشاہِ عرب
اُن کو کافر یہ کہیں ہائے
ستم!ہائے غضب
دیکھتے ہیں جو دکھاتا ہے
تُو ہم کو یارب
سنتے ہیں جو سناتاہےبس
اپنا کیا ہے
مولوی کوئی کہے یا کوئی
کچھ نذر کرے
لوگ نکلے ہیں اسی دھن میں
پہن کر جبےّ
دین وایمان سے کیا کام
،رہے یا نہ رہے
فکر بے دینوں کو بس یہ ہے
کہ ہر پہلوسے
مال دنیا کا ملے دولتِ
عقبیٰ کیا ہے؟
اب مخالف ہیں وہی جو نظر
آتے تھے رفیق
سخت بدخلق ہیں وہ ہم جنہیں
سمجھے تھے خلیق
بدلیاقت وہی نکلے ہیں جو
بنتے تھے لئیق
حائل منزل مقصود ہیں قظّاع
ِطریق
نقد ایماں کے تحفظ کا
طریقا کیا ہے؟
جو قوی ہے اسے سمجھے ہیں
یہ نادان ضعیف
ہوتا جاتا ہے اسی وجہ سے
ایمان ضعیف
کیوں نہ بے دین کہیں پھر
اُسے ہر آن ضعیف
مضمحل ملتِ بیضا ہے مسلمان
ضعیف
ملحدوں کی جو بن آئے تواچنبہا
کیا ہے
ہائے اس حد کو مسلمان کی
پہنچی نوبت
چھوڑ دی پیروئ قولِ شفیعِ امت
کہتے ہیں حضرتِ عیسیٰ نے
نہیں کی رفعت
شغل یاروں کا ہے تحریف ِ
کتاب و سنت
دین جاتا ہے تو جائے انہیں
پروا کیا ہے
جو کہ بنتے ہیں موحد یہ
انہیں کا ہے خیال
آکے مُردوں کو جِلائے گا
مسیح الدجال
اس عقیدہ کے مخالف سے وہ
رکھتے ہیں ملال
عالم الغیب ہے آئینہ ہے
تجھ پرسب حال
کیا کہوں ملتؐ اسلام کا
نقشا کیا ہے
زندہ گردانتے ہیں حضرت
عیسیٰ کو ابھی
اللہ اللہ یہ حق پوشی و یہ
بے ادبی
اس عقیدے سے جو روکےاُسے
کہتے ہیں شقی
عافیت تنگ ہے بے دینوں سے دینداروں
کی
قائم اب تک ہے یہ دنیا سبب
اس کا کیا ہے
زندہ عیسیٰ کو بتانے سے
فضیلت ہے غرض
شیخ بطال میں ہر طرح بطالت
ہے غرض
فتوئ کفر سے اُن کی یہی
نیت ہے غرض
صرف تحصیل ِ زرومال ووجاہت
ہے غرض
اس اس دعوے سے باطل کا
نتیجا کیا ہے
دے کے اک مردِ مجاہد پہ
گواہی جھوٹی
زک پہ زک اور اذیت پہ اذیت
پائی
باز آیا نہ مگر مولوی ِ
بطّالی
حوصلہ اس کا بمعنی یہی
کہتا ہے ابھی
دیکھتے جائیں ابھی آپ نے
دیکھا کیا ہے
جبکہ قرآن سے ثابت ہےوفاتِ
عیسیٰ
اورحضرت نے بھی ارشاد یہی
فرمایا
منصفی شرط ہے پرتو نے یہ
کس منہ سے کہا
قادیانی نے نیا فتنہ کیا
ہے برپا
میں مسیحا ہوں وہ کہتا ہے
مسیحا کیا ہے
ہے ہمیں مخبرِ صادق نے
خبردار کیا
یعنی عیسیٰ ہے اما م ایک
اِسی امت کا
پھر یہ کس واسطے کہتا ہے
تو اے یاوہ سرا
یک قلم زندگی ورفع ونزولِ
عیسیٰ
سب کا منکر ہے اس آفت کا
ٹھکانا کیا ہے
ذکر دجال لعیں واقعہ ء قحط
و بلا
حالت زلزلۂ ارض ونشاناتِ
سما
کینہ و بغض ونفاق ِ حضراتِ
علماء
جاوہنگام وعلاماتِ نزولِ
عیسیٰ
سب احادیث میں مرقوم ہیں جھوٹا کیا ہے
سہسوانی کی ذرایا وہ سرائی
تو سنو
اُس کا دعویٰ ہے کہ زندہ
ہیں مسیح خوشخو
اور کہتا ہے کہ اتریں گے
وہی اے لوگو!
کوئی انصاف سے دیکھے اگر
اس نامہ کو
ابھی کھل جائے وہ سچا ہے
کہ جھوٹا کیاہے
مرحبا صل علیٰ صل علیٰ صل
علیٰ
حضرت عیسیٰ موعود ہوئے
جلوہ نما
ہائے بے دین سمجھتے ہیں
انہیں یاوہ سرا
نفخ میں صور کے یارب ہے
تامل کیسا
اب قیامت کے بپا ہونے میں
وقفا کیا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ کافر ہے
یہ بے شبہہ وشک
حضرت مہدی معہود کی کرتے
ہیں ہتک
کیا عجب ہے جو کہیں سن کے
اسے حوروملک
ٹوٹ پڑتا نہیں کس واسطے
یارب یہ فلک
کیوں زمیں شق نہیں ہوتی یہ
تماشا کیا ہے
مہدی و عیسیٰ موعود نمودار
ہوئے
مرحبا دین کی تائید میں
کیا کام کیئے
حیف اس شخص کی حالت پہ جو
پھر بھی یہ کہے
کس لئے مہدی برحق نہیں
ظاہر ہوتے
دیرعیسیٰ کے اترنے میں
خدایا کیا ہے
پہلے دوچار کو مہدی نے
بنایا بسمل
پھر کیا تیغِ براہیں سے
جہاں کو گھائل
اب تو حسّاد بھی کہنے لگے
ہو ہوکے خجل
کی ہے کیا جلد ترقی پہ
ترقی حاصل
واہ اے ہمت عالی ترا کہنا
کیا ہے؟
شک نہیں اس میں وہ ہے ملہم
باصدق وصفا
مہدی و عیسیٰ موعود بھی
بافضلِ خدا
تو مگر حشر میں اس کہنے کا
پائے گا مزا
پہلے ملّا تھا ۔پھر الہامی
بنا پھر عیسیٰ
قابلِ دید تماشا ہے یہ
مرزا کیا ہے؟
ہر طرح ہوگیا یہ مسئلہ
ثابت بدلیل
کہ یہی عیسیٰ ء امت ہیں
باوصاف ِ جمیل
پھر خدا جانے یہ کس برتے
پہ کہتا ہے شکیل1
نہ سمجھ بیٹھنا اس کو کہیں عیسیٰ کا مثیل
دیکھو قرآن واحادیث کا
منشا کیا ہے ؟
قول ِمہدی جسے سمجھا ہے تو
اے شوخ قبیح
وہ تو انجیل کے اک قول کی
ہے نقلِ صحیح
تونے پھر کس لئے باندھا ہے
یہ بہتانِ صریح
صاف کہتا ہے کہ نجّارکے
بیٹے تھے مسیح
ہوئے بے باپ کے پیدا یہ
عقیدا کیا ہے ؟
مہدئ پاک کی موجود ہے
تصنیف ِ فصیح
دیکھ لے گا جو کوئی شخص
اسے بالتصریح
تیرے اس کذب کو کیاخاک وہ
سمجھے گا صحیح
صاف کہتا ہے کہ نجّارکے
بیٹے تھے مسیح
ہوئے بے باپ کے پیدا یہ
عقیدا کیا ہے
حیی و قیوم مسیحا کو
سمجھتا ہے تو آہ
اور کہتا ہے ہوئے فوت رسول
ذی جاہ
کیوں نہ اس قول سے بندے کو
ہو رنجِ جانکاہ
کی ہے وہ ہرزہ درائی کہ
عیاذًاباللہ
ٹکڑے ٹکڑےہوا دل سن کے
کلیجا کیا ہے
شیخ جی!اب تو خداکے لئے
شرماؤذرا
دیکھ لو ضد کا تمہاری یہ
نتیجہ نکلا
یعنی کہنے لگے عیسائی بھی
بااستہزا
ہوا قرآن سے اثبات ِ حیاتِ
عیسیٰ
یہ کرامت ہے کہ اعجازِ
مسیحا کیا ہے
زندہ اب حضرت عیسیٰ
کوسمجھنا نہ کوئی
یادرکھنا اسے سب راہ یہی
ہے سیدھی
لاکھ بہکائے تمہیں مولوی
بطالی
مومنو!ابلہ فریبی میں نہ
آنا اُس کی
ایک ہی فتنہ ہے تم نے اسے
سمجھا کیا ہے ؟
آج کل فکر میں دجالِ لعیں
ہے ہرآں
چاہیے پیروی مہدی باعزت
وشاں
اورپھر یہ بھی رہے صبح و
مسا وردِ زباں
یارب!اس دورِ پرُآشوب میں
قائم ایماں
توہی رکھے تو رہے ورنہ
بھروسہ کیا ہے ؟
مہدئ پاک سے جلتا ہے کوئی
ناہنجار
اورکرتا ہے کوئی کفر کے
فتوے تیار
سارے عالم میں تہلکہ ہے
خدائے غفّار
رات دن فتنوں کی بارش کی
طرح ہے بوچھار
گرنہ ہو تیری صیانت تو
ٹھکانا کیا ہے ؟
مہدئ پاک پہ ہو فضل ِخدائے
بیچوں
وہ مضامین لکھے جن پہ ہوا
دل مفتوں
کیوں نہ سیراب ہوں اب تشنہ
لبانِ محزوں
موجزن اس میں ہیں حقّیت
ِحق کے مضموں
یہ رسالہ ہےخدا جانے کہ
دریا کیا ہے؟
واہ کیا خوب مضامین
پسندیدہ لکھے
طالبِ صدق جنہیں دیکھ کے
مسرورہوئے
سہسوانی 2بھی
اسے دیکھ کے انصاف کرے
رہنما ہے یہ کتاب اہل
سعادت کے لئے
جو ازل کے ہیں شقی تذکرہ
ان کا کیا ہے؟
راستی سے جنہیں نفرت ہے
ہوئے وہ محزوں
کینہ و بغض وعداوت نے کیا
اُن کو زبوں
اُن کے سینوں میں ہوا ان
کی تمناؤں کا خوں
کٹ گئے دشمن ِدین دیکھ
کےاس کے مضموں
سیفِ مسلول کہوں اس کو تو
بیجا کیا ہے ؟
ہوگیا دشمنِ مختاؔر زمانہ
یارب!
تواسے دامنِ رحمت میں
چھپانا یارب !
رو زبد بہر محمد ؐنہ
دکھانا یارب !
آخری وقت کے فتنوں سے
بچانا یارب !
ہے یہی دل کی مراد اور
تمنا کیا ہے
1۔شکیل تخلص ہے صاحبِ
قصیدہ کا جو سہسوان کا باشندہ ہے۔
2۔مولوی محمد بشیر سہسوانی
3۔یہ مخمس اخبار
"الحکم"قادیان میں دسمبر 1898کو شائع ہوئی
(حیات حضرت مختار صفحہ246-251)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں