صفحات

بدھ، 21 دسمبر، 2016

18۔ نالۂ خاموش

کلامِ مختار ؔ

18۔ نالۂ خاموش


اے نالۂ خاموش خدا تجھ کو جزا دے
افلاک سے بڑھ کر عرشِ معلیٰ کو ہلا دے

اےچشمِ ستم دیدہ وہ طوفان بپا کر
جو دیدۂ سفاک کو بھی خون رُلا دے

اے دل تو لہو بن کے مری آنکھ سے ڈھل جا
چمکا ہوا رنگ رخِ آفاق اُڑا دے

اے خونِ جگر سینے میں کھول اور اُبل جا
اک جوشِ جنوں خیز رگ و پے میں رچا دے

اے عقلِ رسا اور تیرا اب نہیں کچھ کام
دیوانوں کی فہرست میں اک نام بڑھا دے

گزرا ہے جو نظروں سے وہ بھولی نہیں نظریں
گزری ہے جو دل پر اسے دل کیسے بھلا دے

خود میرے محافظ نے ہی چھینی مری دولت
یہ طرفہ ستم کیوں نہ مری جان جلا دے

رگ رگ میں تپِ غم سے لہو کھول رہا ہے
منہ تکتے ہیں حسرت سے میرے دل کے ارادے

مخلوق نے انصاف کی توقیر گھٹا دی
اللہ مرا حوصلۂ  ضبط بڑھا دے

صد حیف کہ کمزور کو بے وجہ زبردست
اک تختۂ مشق ِستم وجَوربنا دے

کیا جرم ہے کیا میں نے بگاڑا ہے کسی کا
کچھ میری خطا بھی تو کوئی مجھ کو بتا دے

اک میں ہی تو دیوانۂ آئینِ وفا تھا
اللہ مجھی کو وہ غم ہوش ربا دے

آتے ہی مرا نام بدل جاتی ہے تیوری
اب کیا کہوں اللہ ان آنکھوں کو حیا دے

حق کا تو زبردست گھلا گھونٹ چکا ہے
کمزور کو برداشت کی توفیق خدا دے

پاکیزگئ نفس ہے اک نعمت عظمےٰ
لیکن یہ اسی کے لئے ہے جس کو خدا دے

کل تھا تو میں وہ تھا جو ہے مشہور۔ مگر آج
جو چاہے وہ اس کا لبِ الزام بنا دے

تقصیر بھی کچھ ہے کہ نہیں اس سے غرض کیا
شائق جو سزا دینے کا ہو کیوں نہ سزا دے

یونہی سہی میں فاتحۂ خیر تو پڑھ دوں
انصاف کو گاڑا ہے کہاں کوئی بتا دے

خالی نہیں جاتیں کبھی مظلوم کی آہیں
کوئی یہ اُس انصاف کے پتلے کو بتا دے

یوسف تو اسیری میں بھی یوسف ہی رہے گا
لیکن اسے کیا کہیے جو یوسف کو سزا دے

ہے بہر سزا جرم کا اثبات بھی لازم
الزام تو جس پر بھی جو چاہے وہ لگا دے

اے وہ کہ نظر بندئ یوسف سے ہے شاداں
دنیا کو ذرا دامنِ یوسف بھی دکھا دے

رہتا ہے عیاں ہو کے ہی فرق حق و ناحق
گر کوئی اُسے کتنے ہی پردوں میں چھپا دے

اللہ رہے پاکیزگئ دامنِ یوسف
شرمندہ زلیخا ہو عزیز آنکھ جھکا دے

اے دل یہ تیری نظم تو احباب نے سن لی
اک نظم اسی دھن میں خدا کو بھی سنا دے

جو دیکھنے والے ہیں وہ یہ دیکھ لیں مختاؔر
تُو نظم پڑھے۔داد تجھے تیرا خدا دے

نوٹ ۔یہ نظم ہفت روزہ "لاہور"بابت 26دسمبر1992ءمیں شائع ہوئی۔الفضل انٹرنیشنل 3نومبر1995ء

(حیات حضرت مختار صفحہ286-287)

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں