صفحات

اتوار، 18 دسمبر، 2016

21۔ وارداتِ قلب

کلامِ مختار ؔ

21۔ وارداتِ قلب


کچھ عجب حال سے آشفتۂو حیراں ہوں میں
کوئی ہنس کر بھی جو پرُساں ہوتو گریاں ہوں میں

جان ہے تن ہیں مگر پھر تن ِبے جاں ہوں میں
نئے انداز کا صیدِ غم ہجراں ہوں میں

دل ہے سینے میں مگر ولولۂ دل مفقود!
سینہ کہتاہے کوئی شہر خموشاں ہوں میں

سرد ہیں جوش و خروش ،آرزوئیں افسردہ!
دل کاایما ں ہے کہ اک خانۂ ویراں ہوںمیں

جوش غم ،نرغہ ءامراض،فراقِ رُفَقَا
ایک مجموعۂ حالات پریشاں ہوں میں

زِیست میں جان تھی جن سے وہ اَحِبّانہ رہے
اب اگر ہوں بھی تو گویا تن ِبے جاں ہوں میں

کل کوئی دوست سدھارا ،تو کوئی آج گیا
کبھی اِس کے کبھی اُس کیلئے گریاں ہوں میں

عہدِا ول کے وہ احباب ِکرام آج کہاں
پیکرِ رنج و غم و حسرت و حرماں ہوں میں

دیکھتے دیکھتے ایک ایک نے لی راہ ِجناں
داغ پر داغ وہ کھایا ہے کہ لرزاں ہوں میں

صبح وشام اب وہ کہاں مجلس ِیارانِ قدیم
دل تڑپتا ہے کہ جی کھول کے نالاں ہوں میں

رنگِ نیرنگئ آفاق کا عالم توبہ!!
کبھی بے خود کبھی انگشت بدنداں ہوں میں

یاتو تھا نغمہ زنِ صحبتِ یاران کُہن
یا اب اک نوحہ گر فرِقت یاراں ہوں میں

کیسے کیسے مرے غمخوار چھٹے ہیں مجھ سے
جانے کس کس کے لئے اشک بداماں ہوں میں

اُن کے اوصاف ہیں پیش نظر ورد ِزباں
اُن کے الطاف کا مداح و ثناء خواں ہوں میں

اُن کی ہر طرز سے ہوتی تھی نئی شان عیاں
اُن کی ہر شان یہ کہتی تھی نمایاں ہوں میں

اللہ اللہ وہ اُلفت، وہ محبت اُن کی
اللہ اللہ وہ اخلاص کہ نازاں ہوں میں

زیست کیا زیست ہے جب ایسے اَحِبّا اُٹھ جائیں
اسی طوفانِ غم وفکر میں غلطاں ہوں میں

جانے والے تو نہ لوٹے ہیں نہ لوٹیں گے کبھی
لاکھ اُن کیلئے گریاں ہوں کہ نالاں ہوں میں

اب دُعا ہےکہ رہے  فضل کی بارش اُن پر
فضل والے سے اس انعام کا خواہاں ہوں میں

دوست کیا پوچھ رہے ہیں مری حالت مجھ سے
نہ تو پنہاں مری حالت ہے نہ پنہاں ہوں میں

جھلملاتی ہوئی شمع ِدرِ ایوانِ حیات
یا لرزتا ہوا اشکِ سرِ مثرگاں ہوں میں

اب گیا، آج گیا، صبح گیا، شام گیا،
یوں ہی اب چند گھڑی صورتِ مہماں ہوں میں

تیلیاں ہو گئیں کم زور قفس ناکارہ
طائر ِروح ہے تیار کہ پرّاں ہوں میں

بیٹریاں توڑ کے چلتے ہوئے یاران ِکہن
اب اسی دھن میں قریب ِدرِزنداں ہوں میں

مجھے یاروں ہی کا غم ہے نہیں اپنا غم کوئی غم
اور غم کیا ہو کہ وقفِ غم ِیاراں ہوں میں

جاں بلب ہو کےبھی راضی برضا ہوں مختاؔر
للہ الحمد کہ ترساں ہوں نہ لرزاں ہوں میں

نوٹ۔حضرت حافظ صاحب کی یہ نظم ماہنامہ"الفرقان"ربوہ بابت مارچ1961میں شائع پذیرہوچکی ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ297-298)

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں