کلامِ
مختار ؔ
26۔ نظر میں نشہء تمکینِ یار باقی
ہے
نہ پوچھئے تجھے کیوں
اعتبار باقی ہے
حضور !گردشِ لیل ونہار
باقی ہے
جناب حسن کی جب تک بہا ر
باقی ہے
امیدوار پر امیدوا ر باقی
ہے
مرا مزار نہ خاکِ مزا ر
باقی ہے
مگر وہ ہیں کہ ابھی تک غبا
ر باقی ہے
کبھی کسی سے جھکے میری
آنکھ ناممکن
نظر میں نشہء تمکینِ یا ر
باقی ہے
سلا چکے ہو جسے قبر میں
وطن والو!
سنو!ابھی وہ غریب الدیا ر
باقی ہے
تمام اہلِ جہاں کی عنایتیں
فانی
مگر عنایتِ پروردگا ر باقی
ہے
اب ایک رنگ میں ہیں مست
ومحتسب دونوں
دماغ ختم،سرِافتخا ر باقی
ہے
دراز حضرتِ پیرِ مغاں کی
عمر دراز
انہیں کے دم سے امیر بہا ر
باقی ہے
کہاں جلیلؔ1وریاضؔ2اب
کہاں خیالؔ 3وشررؔ4
وہ گل تو ہوگئے رخصت یہ خا
ر باقی ہے
جو خادمانِ جنابِ امیر 5تھے
مختاؔر
بس ایک اب ان میں سے یہ
خاکسا ر باقی ہے
1۔استاد نظام دکن حضرت
جلیل مانکپوری جانشین حضرت امیر مینائیؔ
2۔حضرت ریاض خیر آبادی تلمیذ
حضرت امیر مینائیؔ
3۔جناب محمد علی میاں
خیالؔ شاہجہانپوری تلمیذ حضرت امیر مینائیؔ
4۔مولانا عبد الحلیم شررؔ
5۔حضرت منشی امیر احمد
مینائی ؔ
نوٹ ۔حضرت حافظ صاحب کی یہ
نظم ماہنامہ "خالد"ربوہ میں بھی ماہ تبلیغ 1348ء(بمطابق فروری 1969ء)کو
شائع ہوچکی ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ311-312)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں