کلامِ
مختار ؔ
14۔
مخمس۔ مسلمانوں کو کہتے کس لئے ناحق برا تم ہو
(پہلے چار
بند الحکم 09دسمبر1899ء جلد3 شمارہ نمبر32صفحہ 6پر چھپے ہیں صفحہ نمبر 7اور8اب تک
کہیں سے نہیں مل سکا )
مسلمانوں کو کہتے کس لئے
ناحق برا تم ہو
ڈرو اللہ سے کس خوئے بدمیں
مبتلا تم ہو
ابھی سے اس قدرکس واسطے ہم
سے خفا تم ہو
سمجھ لو پہلے اتنا برسر حق
ہم ہیں یا تم ہو
یونہی تکفیر میں سرگرم
کیوں بے فائدہ تم ہو
خلائق سے نہیں ہےشرم خالق
سے تو شرماؤ
کرونا منصفی کو ترک ہٹ
دھرمی سے باز آؤ
کہیں ایسا نہ ہو مل کر کفِ
افسوس پچھتاؤ
یہ کس پر کفر کا لکھتے ہو
فتوٰ ٰی کچھ تو فرماؤ
یہ کس کے واسطے سوچو تو
سرگرم جفا تم ہو
محبت جو کہ رکھتے ہیں کلام
ِ پاک سبحاں سے
تعشق ہے دلوں کو جن کے
شاہنشاہِ ذیشاں سے
رہا کرتے ہیں فکرِ دین میں
جو ہر وقت قرآں سے
تدابیر رہ اسلام میں ہردم
دل وجاں سے
انہیں کو ہائے بے ایماں
کہتے برملا تم ہو
نہیں ہوتے ہیں لوگ آیات
قرآن دیکھ کر قائل
دلوں سے آہ کیسا نورِ
ایماں ہوگیا زائل
جہالت سے لبوں پر رہتی ہے
تقریر لا طائل
کلامِ حق سے روگرداں
،بیانِ خلق پر مائل
تمہیں انصاف سے کہدوکہ
ایسے ہم ہیں یا تم ہو
کہو تم کس سے سیکھا تم نے
نیکوں کو برا کہنا
کسی کو ناسزا کہنا کسی کو
ناروا کہنا
بنایا خوب ہٹ دھرمی کو تم
نے واہ کیا کہنا
مگر اب مان لو اتنا مرا
بہرِ خدا کہنا
اجی انصاف کی جانب بھی
مائل اک ذرا تم ہو
جو شوق ِاتباعِ سیدِ
ابرارہے تم کو
تو موتِ حضرتِ عیسیٰ سے
کیوں انکار ہے تم کو
یہ کیوں ہے اس قدر ضد کس
لئے تکرار ہے تم کو
یہ کیسے امرِ حق کے ماننے
میں عار ہے تم کو
ہم اہلِ حق ہیں کہنے کو یہ
کہتے بارہا تم ہو
رسولِ حق ؐسے جب کم ہیں
صفاتِ حضرتِ عیسیٰ
نہیں افضل جب آنحضرت ؐسے
ذاتِ حضرتِ عیسیٰ
بھلا تسلیم ہو پھر کیوں
حیاتِ حضرتِ عیسیٰ
ہوئی قرآن سے ثابت وفاتِ
حضرتِ عیسیٰ
کہو اب پیرو فرمانِ خالق
ہم ہیں یا تم ہو
نزول ان کا جو تم سمجھے
ہوئے ہو تم کو دھوکا ہے
یہ سوچو تو ہوا جو فوت وہ
واپس بھی آیا ہے
احادیث نبی ؐمیں بھی یہی
مرقوم ہرجا ہے
کلام اللہ میں بھی فوت
ہونا ان کا لکھا ہے
نہ واقف ہوتے اس سے ایسے
ناواقف بھی کیا تم ہو
جو آیا اس جہاں میں
اُسکولازم موت آنی ہے
یہ ثابت ہوگیاآنا ہی جانے
کی نشانی ہے
نہیں منکر کوئی ہر شخص نے
یہ بات مانی ہے
مسلّم ہو گیا یہ مسئلہ
انسان فانی ہے
سمجھتے ہونہ اس کو ناسمجھ
ایسے بھی کیا تم ہو
کوئی کل ہوگیا رخصت ،کسی
کی آج ہےباری
کسی کی آج ہے نوبت کسی کی
کل ہےتیار ی
غرض سب پریونہی ہو جائے گی
اک دن فنا طاری
سمجھ لینے میں پھر اس بات
کے کیوں ہے یہ دشواری
خدا کے فضل سے جب صاحبِ
ذہنِ رسا تم ہو
نہ اب جو لوگ ہٹ دھرمی سے
اپنی باز آئیں گے
کفِ افسوس مل مل کربہت
آنسو بہائیں گے
جواُن کے منتظر ہیں یاد
رکھیں منھ کی کھائیں گے
کہاں ہیں حضرتِ عیسیٰ جو
اب تشریف لائیں گے
عبث اس قصۂ باطل پہ کیوں
ایسے فدا تم ہو
یہی قولِ رسول اللہ بھی
لکھا ہوا پایا
یہی قرآن میں خالق نے بھی
ارشاد فرمایا
درست اس کا عقیدہ کب رہا
جو اس میں شک لایا
ہواجو فوت دنیا میں وہ پھر
واپس نہیں آیا
اسے تو مدتوں سے دیکھتے
صبح و مسا تم ہو
نہ ہو اس قصۂ باطل سے مومن
خشمگیں کیونکر
یہ باتیں مان کر کھو دے
کوئی ایمان ودیں کیونکر
مسلمان ہیں ہمیں ہو ان
فسانوں پر یقیں کیونکر
بھلاآئیں گے عیسیٰ بعد ختم
المرسلیںؐ کیونکر
بتاؤ تو سہی اس وہم میں کیوں مبتلا تم ہو
علاجِ دردِ پنہاں وعیاں
ہیں میرزا صاحب
شفا بخشندۂ آزارِ جاں ہیں
میرزا صاحب
خدا کے مرسل باعزوشاں ہیں
میرزا صاحب
امام الوقت ،مہدئ زماں ہیں
میرزا صاحب
معاذاللہ معاذ اللہ انہیں
کہتے برا تم ہو
بنایا ہے خدا نے اُن کو
مورد لطفِ بیحد کا
ہوا ہے بول بالا اُن کے
باعث دینِ احمدؐ کا
بڑا ہے مرتبہ نزدِ خدااُن
کے مویّد کا
یہی ہیں وہ زمانہ منتظر
تھا جن کی آمد کا
یہی ہیں وہ یہی ہیں اب بدل
ان پر فدا تم ہو
یہی ہیں مدتوں سے تک رہے
تھے راستہ جن کا
یہی ہیں قبل بعث بھی زمانہ
تھا فدا جن کا
یہی ہیں وہ ہوا کرتا تھا
چرچا جابجا جن کا
یہی ہیں ذکر فرماتے
تھےشاہِ دوسرا جن کا
یہی ہیں وہ یہی ہیں طالبِ
عفوِ خطا تم ہو
حق آگاہ وامیں ومتقی
ومرسلِ رحماں
شفیق وغم گسار وباعثِ
تسکیں غمِ ناکاں
غلامِ احمؐد ختم
الرسل،شاہنشۂ ذیشاں
امام الوقت مہدئ زماں وعیسئِٰ
دوراں
یہی ہیں ہاں یہی ہیں شک
میں اب کیوں مبتلا تم ہو
یہی ہیں ہورہے ہیں جن سے
اب عالم میں سب عاجز
فصیحانِ عجم عاجز بلیغانِ
عرب عاجز
کسی سے یہ زمانے میں
ہوئےکس وقت کب عاجز
مخالف ہوتے جاتے ہیں انہیں
سے روزوشب عاجز
یہی ہیں آج جن کا شور سنتے
جابجا تم ہو
یہی ہیں وہ لقب جن کا ہے
مہدئ کرم گستر
مصدق ہیں انہیں کے قول کے
اقوالِ پیغمبر
کلام اللہ بھی کرتا ہے
تائید ان کی سرتاسر
شہادت دے چکے ہیں مہر ومہ
بھی ان کے دعویٰ پر
بتاؤ چاہتے اب کیا ثبوت اس
کے سوا تم ہو
خدا کے واسطے باز آؤ اب
شیخی ونخوت سے
کرو اس ضد کو تم فی الفور
دور اپنی طبیعت سے
دل اپنا صاف کرلو مرسلِ حق
کی کدورت سے
نصیحت کررہا ہوں میں نہایت
جوش ِالفت سے
نہیں منظور مجھ کو سرگروہِ
اشقیا تم ہو
یہ حکم امت پرصادر کر گئے
ہیں سرورِ امت
کہ جس کے سامنے ہو جلوہ گر
مہدئ با عظمت
سلام اُن کو ہمارا بھی وہ
پہنچا کر بصد شفقت
ادب سے پھر کرے یہ عرض
خوداُن سے کہ آنحضرت
ہمارے رہنما تم ہو ہمارے
پیشوا تم ہو
بیاں ہو ہائے کیا طوفان
ِبحرِ کفر کی حالت
جھکولے دے رہی ہے ہر طرف
سے موج پر آفت
بچالے ڈوبنے سے اس کو ہے
کون ایسا باہمت
طلاطم میں پڑی ہے کشتئ
دینِ شہ امت
مسیح ِ وقت اس کے ناخدا
بہر خدا تم ہو
اگر یہ چاہتے ہو خوش ہو تم
سے خالقِ اکبر
توہے ہروقت لازم پیروئ ِ
قولِ پیغمبرؐ
مٹا کر دل سے نقشِ اتباعِ
نفس سرتا سر
کرو بیعت امام الوقت کے
دستِ مبارک پر
اگر پابندِفرمانِ محمدؐ
مصطفیٰ تم ہو
خدا ہے بخشنے والا اگر تم
اب بھی باز آؤ
یہ مایوس اتنے ہو لاتقنطوا کو یاد فرماؤ
نصیحت ہے یہی مختاؔرکی اس
کو بجا لاؤ
ادب کے ساتھ پیچھے پیچھے
مہدی کے چلے آؤ
جو ڈھونڈا چاہتے جنت کا سیدھا راستہ تم ہو
(حیات حضرت مختار صفحہ252-256)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں