کلامِ
مختار ؔ
29۔ واسوخت
تحسین کلام حضرت مختار
شاہجہانپوری
منجانب استادحضرت داغ
دہلوی
"میں آپ کو اس نومشقی
میں ایک کہنہ مشق شاعر ہونے کی داد دیتا ہوں"
حضرت داغ دہلوی
حضرت داغ کے قطعہ تاریخ کا
ایک مصرعہ
"عجب لکھا جلا کے جل
کے واسوخت"
مرتب کتاب ہذا
بسم اللہ الرحمان الرحیم
نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ
الکریم
اکناف عالم میں جو قومیں
بسی ہوئی ہیں اُن میں زردرنگ والے اور چھوٹی اوراندر کو دھنسی ہوئی آنکھوں والے
جاپانی اور چینی اقوام کے لوگ بھی ہیں اورسفید اورسانولے رنگ اورخوبصورت خدوخال
والی ایشیائی قومیں بھی عظیم الجثہ اور قوی ہیکل ا فغانی بھی ہیں اورحسین
اورخوبصورت ایرانی اورترک نسل کے باشندے بھی ،مشرق وسطٰی میں عرب اقوام بسی ہوئی
ہیں اورمغرب میں سفیدفام انگریز اورفرانسیسی ورسرخ رنگ والے جرمن آبادہیں اوریہی
حال یورپ کے دیگر ممالک اورامریکہ اورآسٹریلیا اورنیوزی لینڈ کا ہے۔لیکن افریقی
ممالک میں سیاہ فام ا ورموٹےہونٹوں والے لوگ آباد ہیں۔دنیا کے ہرخطے میں بسنے والی
اِن اقوام کے نہ صرف رنگ اورنسلیں ہی مختلف ہیں بلکہ اِن کی بولیوں میں بھی
بعدالمشرقین کا فاصلہ ہے۔ان اقوام میں سینکڑوں زبانیں رائج ہیں ۔قدیم زبانوں میں عربی،عبرانی،کلدانی،سریانی،یونانی
اورسنسکرت وغیرہ شامل ہیں۔ان تمام قدیم زبانوں کے مقابلہ میں "اردو"زبان
ایک نوزائیدہ بچہ کی مانند ہےلیکن آپ یہ جان کر ضرورورطۂ حیرت میں پڑجائیں گے
کہ اگران تمام قدیمی السنہ مشرقیہ ومغربیہ
کی ہمہ گیری اورمقبولیت کا جائزہ لیا جائے تو جو نتیجہ برآمد ہوگاوہ ماہرلسانیات
کے لیئے ایک محیر العقول کارنامے سے کم ہرگزنہ ہوگااورآپ بھی یہ سن کر حیران رہ
جائیں گے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں اس نوزائیدہ زبان یعنی"اردو"کا
چوتھا نمبر ہے۔
ایں سعادت بزوربازو نیست
تانہ بخشدخدائے بخشندہ
اللہ تعالیٰ نے اس
نوزائیدہ زبان میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ یہ السنہ عالم کے الفاظ کو بجنسہ یا ادنیٰ
تغیر کے ساتھ اپنے دامن میں اس طرح سمیٹ لیتی ہے کہ اُن پر غیر زبان ہونے کا گمان
تک نہیں ہوتا۔ہندی زبان کے تمام مصادر اس نے اپنا لیئے ہیں جو اس کی بنیاد بن کر
اس کی مضبوطی اوراس کی حسین تعمیراتی نظام کو مزید مستحکم اورحسین تربنانے میں
اورہم کردارداکرتے ہیں۔
جہاں تک عربی اورفارسی
زبانوں کاتعلق ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان دونوں زبانوں کے خوبصورت اورمعنی
نگرالفاظ اورمحاورات سے "اردو"زبان کا دامن سبدِگُل کا منظر پیش کرتاہے۔
عربی،فارسی،ترکی،انگریزی وغیرہ زبانوں کے لاتعدادالفاظ اردو زبان میں ایسے رچ بچ
گئے ہیں کہ اگر ان کو اردوکے دامن سے نوچ لیا جائے تویہ تہی دامن ہوکرعبرت کا نشان
بن جائے۔
جہاں تک نظم کا تعلق ہے تو
اس کی بنیادیں بھی عربی زبان کی بحوراوراوزان پراستوارنظر آتی ہیں۔اصناف شعرمیں
بھی عربی اورفارسی زبانوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔مثنوی ہویاقصیدہ یاغزل کا میدان
اردونےہرجگہ جھنڈےگاڑے ہیں اوروہ کرنامے انجام دیئے ہیں کہ اہلِ زبان حیرت زدہ
ہوکررہگئے ہیں۔میر حسن کی مثنوی سحرالبیان ہو یا نواب مرزاشوق کی مثنویات
"زہرعشق"وغیرہ اپنی سحربیانی اورجذبات نگاری میں اپنا نظیرنہیں
رکھتیں۔پھرمسدس کی طرف آئیے تو میر انیس اورمرزادبیر اوران کے ہمعصرشعراء نے
منظرنگاری کا حق اداکردیاہے۔صفحہ قرطاس پرفن ِحرب وضرب کے وہ معرکے کئے کہ سہراب
ورستم کی داستانیں تازہ ہوگئیں۔ہمارے دورمیں جوش ملیح آبادی نے بھی مرثیہ نگاری
میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔
طنزومزاح کی طرف آئیے تو
اکبر الہ آبادی نے وہ مقام حاصل کیا کہ اردوکے ارتقائی مراحل سامنے آگئے اورآج تک
اس صنف میں کوئی اُن کی گرد کو بھی نہیں پہنچا۔ہاں اس دور میں رئیس امروہوی کے
قطعات میں کچھ جھلکیاں نظر آجاتی ہیں۔
غزل کے میدان میں غالب نے
وہ کارنامہ انجام دیا کہ جہاں ان کا مرغ تخیل پرواز کرتا ہے وہاں اردوکے کسی
شاعرکو پرمارنے کی گنجائش نہیں۔کچھ شعراء نے ان کے مرغ تخیل کودامِ تحریرمیں لانے
کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ہمارے زمانہ میں اصغرگونڈوی کے یہاں کچھ نمونے مل
جاتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد ہم اپنے
مقصد کی طرف آتے ہیں اوراس بات کا اظہاراقرارضورری سمجھتے ہیں کہ موجودہ دورمیں
غزل کے علاوہ دیگر اصناف النادرکاالمعدوم کا منظر پیش کرہی ہیں۔مثنوی کی صنف متروک
تونہیں ہوگئی لیکن غزل کےسامنے اُس کا چراغ بھی جلتا نظرنہیں
آتا۔ہاں"واسوخت"کی صنف ضرورمتروک ہوچکی ہےلیکن دورآمیرؔوداغؔ میں اس صنف
کا طوطی بھی بول رہا تھا اورکئی اعلیٰ درجہ کے"واسوخت "ظہور میں
آئے۔اُسی زمانہ کی بات ہے کہ حضرت امیرؔ مینائی کے ایک شاگردرشید حضرت حافظ
سیدمختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری نے اپنی جودت طبع سے کام لیتے ہوئے اس صنف
کےمیدان میں قدم رکھا اورروانی طبع اورفصاحت بیانی کے وہ جوہر دکھائےکہ جہاں
استادحضرت داغؔ کوبھی ان الفاظ میں خراج تحسین ادا کرنا پڑا:
"میں آپ کو اس نومشقی
میں ایک کہنہ مشق شاعرہونے کی داددیتا ہوں"
پھرایک تاریخی قطعہ بھی
عنایت فرمایا جس کا تاریخی مصرعہ یہ تھا:۔
"عجب لکھا جلا کے جل
کے واسوخت"
یہ واسوخت حضرت حافظ
سیدمختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری کو بہت عزیز تھا اوروہ اس کو اپنے وسیع و عریض
کتب خانے کی ایک مقفل الماری میں محفوظ رکھتے تھے۔اس واسوخت کا ابتدائی حصہ
ماہنامہ "مرقع"میں جو حضرت مختار ؔ کے ایک شاگردفاضل شاہجہانپوری نکالتے
تھے،قسط وارشائع ہوتا رہاجسے رقم الحروف نے رسالے سے جدا کرکے اپنے پاس محفوظ
کرلیا تھا اورجووقت ضرورت بہت اہم ثابت ہوا۔
حضرت مختار ؔ شاہجہانپوری
جنہوں نے راقم الحروف کو اپنا منھ بولا بیٹا اورجانشین بنایاہواتھا۔اکثرہندوستان
کے مختلف شہروں کے سفر پر نکل جاتے تھے اوراپنے استادحضرت امیر مینائی لکھنوی کی
خدمت میں رام پورحاضری دیتے تھے۔جہاں ان کے محترم استادنواب رام پورکے دربار میں
معززعہدہ پرممتازاور"امیر اللغات"کی تدوین میں مصروف رہتے تھے۔غیر حاضری
کے دوران راقم الحروف اُن کے مکان اوراُس
کے مختصر باغیچہ کی نگہداشت کرتا تھا۔ایک مرتبہ حضرت مختار ؔ اُس الماری کوقفل لگانابھول گئے اورراقم الحروف
کو اُس کی واسوخت کا مسودہ ہاتھ آگیا،جسے راقم الحروف نے نقل کرکے اپنے پاس محفوظ
کرلیا۔
کچھ عرصہ بعد حضرت حافظ
صاحب کو میرا نقل کردہ مسودہ ہاتھ آگیا اورانہوں نے اسے بھی مقفل کردیا۔میرے نقل
کردہ مسودے پر 30جولائی1942تاریخ درج ہے۔بعد ازاں تقسیم ملک سے قبل حضرت حافظ صاحب
پنجاب چلے گئے اوروہاں عمر کے آخری ایام میں اپنے بھانجہ سید محمد ہاشم بخاری کے داماد سید عبد الباسط
کے یہاں قیام پذیر رہے اوروہیں انتقال کیا۔
اُن کے انتقال کے بعد راقم
الحروف سید عبد الباسط مرحوم کی بیوہ سے ملا اورواسوخت کے متعلق دریافت کیا تو
انہوں نے انکشاف کیا کہ انہیں حافظ صاحب کے کاغذات اورمسودات کا کچھ علم نہیں۔البتہ
میرا بیٹا عبدالسلام باسط جو آج کل جہلم کے کسی پوسٹ آفس میں ملازم ہے،کچھ بتا
سکتا ہے۔میں نے ان کے بتائے ہوئےپتہ پر عبد السلام باسط کو خط لکھا لیکن کوئی جواب
موصول نہ ہوااوراس بات پر لمبا عرصہ گذرگیا۔اس عرص ہمیں راقم الحروف نے "حیات
حضرت مختار"کے نام سے حضرت حافظ صاحب کے سوانح حیات اورنایاب کلام شایع کیا
تواخبار میں اشتہار پڑھ کر انہیں عبد السلام باسط کا آرڈر ملا۔میں نے مطلوبہ کتب
ان کو روانہ کردیں اورانہیں لکھا کہ آپ تو پاکستان چپ بورڈ جہلم میں خدمات انجام
دے رہے ہیں ،میں نے آپ کی والدہ کے بتلائے ہوئے پتہ پر آپ کو خط لکھا تھا جو آپ کی
نقل مکانی کے باعث آپ تک نہ پہنچ سکا۔اگر
آپ کے پاس حضرت حافظ صاحب کے واسوخت کی کاپی ہو تو میں ہر قیمت پر اُس کا سوداکرنا
چاہتا ہوں،لیکن حسبِ سابق مجھے اس خط کا جواب بھی نہ ملا۔اس پر بھی ایک زمانہ
گذرگیا۔ایک روزاسی پاکستان چپ بورڈ جہلم سے مجھے ایک عزیزکا خط ملا جس سے معلوم
ہوا کہ وہ بھی تبدیل ہوکر جہلم آگئے ہیں۔میں نے ان کو تمام حالات لکھ کر درخواست
کی کہ وہ عبد السلام باسط کو آمادہ کرکے مطلوبہ مسودہ یا اس کی بقل حاصل کرلیں۔اس
سلسلہ میں ان کا جو مطالبہ ہو گا میں اس کو پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔
خدا کا کرنا ایسا ہو اکہ
میرے عزیز کی سعی مسلسل سے عبد السلام باسط نے ایک مسودہ ان کے سپرد کیا جو میرے
ہاتھ کا لکھا ہواتھااورجس پر 30جون1942ءکی تاریخ درج ہے۔یہ مسودہ اس حالت میں ملا
کہ اُس کے تمام اوراق کا ابتدائی اوپروالاحصہ بارش کی نذرہوچکا ہے۔میرے عزیز نے
اعلیٰ درجہ کی مشین پرفوٹواسٹیٹ نکلوا کر مجھے روانہ کردی۔میں نے مسودہ کی یہ گت
دیکھ کراپنا سرپیٹ لیا لیکن
یترحسبۃ ازکمان بازنمی آید
بہرحال میں نے ایک رجسٹر
پر اس کی نقل شروع کردی اورخدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے میری مشل ان اوراق کے
ذریعہ بڑی حد تک آسان کردی جومیں نے
ماہنامہ "مرقع"شاہجہانپور سے علیحدہ کرکےمحفوظ کرلیئے تھے۔بعض جگہ اپنی
جودت طبع سے بھی کام لینا پڑا۔فالحمدللہ
اب آخر میں راقم الحروف یہ
عرض کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ بیشک صنف "واسوخت"متروک ہوچکی ہےلیکن تاریخ
ادب اردو سے تو کوئی اس کو محو نہیں کرسکتا۔اردو زبان کی یہ صنف اپنے دورمیں مقبول
اورمشہور تھی اور لوگ مشاہیر شعراءکے واسوختوں کو مزے لے لے کرپڑھتے اورسردہنتے
تھے۔
میں نے جب اس تباہ شدہ
مسودہ کی نقل مکمل کرلی تو ایک صاحب علم وفضل بزرگ سے اسے شایع کرنے یا نہ کرنے کے
متعلق مشورہ طلب کیا تو انہوں نے ان الفاظ میں مجھے واسوخت طبع کرانے کی رغبت
دلائی:۔
بیشک اردو زبان کی شعری
اصناف سے یہ صنف یعنی واسوخت فی زمانہ متروک ہوچکی ہے لیکن نصاب اردوسے تو کوئی ذی
ہوش اسے محو نہیں کرسکتا۔آئیندہ کا کوئی مورخ جب اردو زبان کی تاریخ مرتب کرے گا
تووہ لامحالہ اس صنف کا نہ صرف ذکر کرے گا بلکہ اس دور کے ان شعراء کا بھی ذکر
ضرور کرے گا جنہوں نے اپنے عہد میں اس صنف میں کئی اعلیٰ درجہ کے واسوخت لکھے۔
"واسوخت "لفظ
سوختن سے نکلا ہے جس کا معنی جلنے اور جلانے کے ہیں۔لیکن عروضی زبان میں
"واسوخت"اس نظم کو کہتے ہیں جس میں شاعر اپنے محبوب سے کبھی محبت کا
اظہارکرتا ہےاورکبھی اس سے تنگ آکرجلی کٹی باتیں کرتا اوراپنے ظالم محبوب پر طعن
وتشنیع کے تیر برساتا نظر آتاہے۔کبھی عشق حقیقی کے مراتب کا ذکر کرتا ہے اورکہیں
عشقِ مجازی کے صبر آزما مراحل کا تذکرہ چھیڑ دیتا ہے۔وہ اپنی چابک دستی کےبل پر
موسم بہارکی رعنائیوں کو اس تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ گویا وہ ایک ہرے بھرے باغ
میں پھولوں کا نظارہ کرہا ہو اورکہیں خزاں کی تاراجی کا ذکر کرکے ایک اجڑے ہوئے
باغ کا نظارہ پیش کردیتاہے۔وعلیٰ ہذا القیاس
قارئین جب اس
نئے"واسوخت "کا مطالعہ کریں گے تو ہمارے مندرجہ بالا بیان کی تصدیق
پرمجبور ہوجائیں گے۔
اب ہم زیادہ دیر تک قارئین
اور واسوخت کے درمیاں دیواربن کر کھڑے ہونے کےبجائے قارئین کرام کو موقع دیں گے کہ
وہ خود واسوخت کی سلاست زبان ،حسن بیان اورمنظر نگاری اورجذبات نگاری کے متعلق
فیصلہ کریں اور ہمیں اپنی قیمتی رائے سے آگاہی بخشیں۔شکریہ
ابو العارف سلیم ؔ
شاہجہانپوری
22اپریل2003
للہ الحمد کے پھر فصل بہار
آپہنچی
امنڈتی جھومتی مانند نگار
آپہنچی
رند سوجان سے جس پر ہیں
نثار آپہنچی
یہی غل ہے یہی رندوں میں
پکار آپہنچی
رنگ میخانہ گلستاں میں
جماجاتا ہے
ساغرِ گل کفِ بلبل پہ نظر
آتا ہے
ہورہی ہے صفت ِشاہد رعنائے
بہار
آگے سوسن کے کھلی رکھی ہے
انشائے بہار
چشم نرگس میں ہے کیفیت
صہبائے بہار
آج مدہوش نظر آتے ہیں
شیدائے بہار
ایک سے ایک ہم آغوش کہیں
مستی میں
لب پہ لب ہے کوئی مینوش کہیں
مستی میں
بہکی بہکی ہے کسی مست کے
لب پر تقریر
فرط حیرت نے بنایا ہے کسی
کو تصویر
اپنے دلبر سےبغل گیر کوئی
خوش تقدیر
مثل بلبل کسی گل روکا کوئی
دامنگیر
جھومتا ہے کوئی اشجار
گلستاں کی طرح
وجد میں ہے کوئی مرغان ِ
خوش الحاں کی طرح
اللہ اللہ عجب وقت ہے فرحت
افزاء
جھومتی چلتی ہے مستوں کی
طرح سرد ہوا
دیکھ ساقی وہ اٹھی قبلہ کی
جانب سے گھٹا
ابرِ رحمت کا کسی دم میں
پڑے گا چھینٹا
بادۂ ناب سے مینا وصراحی
بھردے
رند پیاسے ہیں انہیں اتنی
پلا جی بھردے
لا مجھے بھی وہ مئے ہوشربا
دے ساقی
جوزمانے کااَلم دل سے بھلا
دے ساقی
جام دیتے ہیں تامل نہ کرآدے
ساقی
واسطہ ساقی ِکوثر لا چھکا
دے ساقی
کم نہ ہودل ،سرمیں خیالات
کا اک جوش رہے
دل مرا شاہدِ مضمون سے ہم
آغوش رہے
جام پر جام بصد لطف دئے جا
ساقی
مست ہوں مست دعا مجھے سے
لیئے جا ساقی
نام میخانہ عالم میں کئیے
جا ساقی
آج مجھ کو بھی پلا توبھی
پئے جا ساقی
کم نہ ہو کیف محبت میں مری
جوش رہے
دل مرا شاہدِ مضمون سے ہم
آغوش رہے
خامۂ فکر سے کھینچوں وہ
سراپائے سخن
محو ہوجائیں جسے دیکھ کے
شیدائے سخن
روشِ مہر مبیں ہو رخ
زیبائے سخن
غیرتِ سروجناں قامتِ
رعنائے سخن
ہو وہ انداز کہ عالم متحیر
ہوجائے
دیکھ لے حاسد ِ بدبیں بھی
تو ششدر ہوجائے
طبع رنگیں ہے میری روحِ
سخن،جان سخن
تروتازہ ہے میرے دم سے
گلستان سخن
اب میری طرح کہاں ہے کوئی
خواہانِ سخن
عاشقِ آنِ سخن شیفتہ شانِ
سخن
وجد کرتا ہے جو سنتا ہے
ترانہ میرا
ہرسخن سنج کے لب پر ہے
فسانہ میرا
جمع ہے گوہر معنی کا خزانہ
دل میں
حسنِ محبوب فصاحت کا ہے
جلوہ دل میں
شاہد نظم معلی ہے دل آرادل
میں
موجزن تازہ مضامین کا دریا
دل میں
موجِ تسنیم سے بڑھ کر ہے
روانی میری
حوضِ کوثر کے لبوں پر ہے
کہانی میری
گرم کرتا ہے دلوں کو سخن
تر میرا
سرد ہوتا ہے مرے خوف سے
ہمسر میرا
شوراقلیم فصاحت میں ہے
گھرگھر میرا
آج صحباں ہے کہاں دیکھ لے
جوہر میرا
ہےزمانے سے جدا طبع گہر
بار کا رنگ
نہیں ملتا ہے کسی سے مرے
اشعار کا رنگ
ہو جو محتاجِ سندوہ نہیں
میری تحریر
جومیرے منھ سے نکل جائے وہ
پتھر کی لکیر
غیرتِ ،سلک گہر میری مسلسل
تقریر
کیوں نہ ہو پائی ہے کس مہر
مبیں سے تنویر
نشہ کیوں کر نہ ہو سر میں
سخن آرائی کا
نام لیوا ہوں امیر احمد
مینائی کا
آج ہے معرکۂ شعروسخن کا
ساماں
آج ہے دن کہ کھلیں جوہر
شمشیر زباں
اے مری طبع
سخن سنج یہی وقت ہے ہاں
ہاں خبردار یہی گوہے یہی
ہے چوگاں
بات تو جب ہے کوئی پڑھ کے
نہ چلنے پائے
دیکھ میدان نہ قبضہ سے
نکلنے پائے
تو سہی سب کہیں سیف زبانی
یہ ہے
ہاں روانی اسے کہتے ہیں
روانی یہ ہے
دھوم ہوجائے کہ اعجاز
زبانی یہ ہے
اورقصے تو فسانہ ہیں کہانی
یہ ہے
راز اب تک جو نہاں تھا وہ
عیاں ہوجائے
حال نیرنگی عشق آ ج بیاں
ہوجائے
کہیں بخود،کہیں غافل، کہیں
ہشیار ہے عشق
کہیں غم ِدوست، کہیں دشمن
ِآزار ہے عشق
کہیں عشاق کا ہمدم ،کہیں
خونخوار ہے عشق
کہیں مجبور ومقید،کہیں
مختار ہے عشق
گھر کے گھر ہوگئے ویران
اسی کے ہاتھوں
ایک عالم ہے پریشاں اسی کے
ہاتھوں
سوزِغم سے کہیں سینے کو
جلا دیتا ہے
سرد مہری سے کبھی دل کو
دکھا دیتا ہے
دھمکیوں سے کبھی عاشق کو
ڈرا دیتا ہے
کبھی فریادکی اک دھوم مچا
دیتا ہے
یہی موجد ہے جفا کاری و
خونخواری کا
یہی بانی ہے ستم کاری
وعیاری کا
اس کی ہر طرز سے پیدا ہے
عجب باریکی
اس کی غفلت میں بھی
اک شان ہے ہشیار ی کی
روشیں یاد ہیں کیا کیا اسے
عیاری کی
بن گیا نور کہیں اور کہیں
۔۔۔تاریکی
صبح صادق ہے کہیں اور شب
تار کہیں
رخِ روشن ہے کہیں کَا کُلِ
خمدار کہیں
چارہ گر ہے یہ کہیں ہجر کے
بیماروں کا
نازبردارکہیں ہے یہ
طرحداروں کا
ستم آموزکہیں ہے یہ ستم
کاروں کا
آئینہ ہے یہ کہیں آئینہ رخساروں
کا
مثل لیلیٰ کہیں محمل کا
طلب گار ہے یہ
قیس کی طرح کہیں طالب
دیدار ہے یہ
دانۂ سبحہ کہیں،رشتہءزنارکہیں
کفر مشرب ہے کہیں،مومن
دیندار کہیں
موجب عیش
کہیں،موجدآزارکہیں
سبب صلح کہیں،باعثِ پیکار
کہیں
کہیں مطلوب ،کہیں طالب جاں
ہوتا ہے
نئے انداز سے ہوتا ہے ،جہاں
ہوتاہے
کہیں رنگِ رخ عاشق سے عیاں
ہوتاہے
کہیں معشوق کے سینے میں
نہاں ہوتاہے
کہیں خاموش،کہیں گرم فغاں
ہوتا ہے
کہیں آنکھوں سے لہو بن کے
رواں ہوتا ہے
کہیں خنجر،کہیں زخم ِتنِ
بسمل پایا
کہیں مقتول اسے دیکھا،کہیں
قاتل پایا
کہیں یہ شمع شبستاں ہے
کہیں پروانہ
کہیں محبوب پری زاد ،کہیں
دیوانہ
کہیں مہمان معزز،کہیں صاحب
خانہ
کہیں دمساز یگانہ ہے کہیں
بیگانہ
کہیں یہ قرب کا طالب ہے
کہیں دوری کا
کہیں راحت کا سبب ہے کہیں زنجوری کا
کہیں یہ صبروتحمل ہے ،کہیں
آہ وبکا
کہیں ارمان، کہیں شوق،کہیں
شرم وحیا
کہیں الطاف وعنایات،کہیں
جوروجفا
کہیں مظلوم،کہیں ظالمِ
مظلوم نما
شانِ معشوق کہیں ہے،کہیں
آن عاشق
کہیں معشوق کا دل ہے کہیں
جان عاشق
جلوۂ موسیٰ کو سرطور
دکھایا اس نے
راستہ خضر سے رہبر کو
بتایا اس نے
ہجرِیوسف میں زلیخا کو
رلایا اس نے
شکم حوت میں یونس کو بچایا
اس نے
میر ساماں ہے کہیں بے
سروسامانی کا
کہیں تنہائی میں مونس کسی
زندانی کا
شام ماتم یہ کہیں ہے،کہیں
صبحِ خزاں
کہیں امید وتمنا،کہیں یاس
وحرماں
ظلمتِ کفرکہیں ہے،کہیں
نورایماں
الغرض دونوں سے ہے اس کا
تعلق یکساں
ربط دونوں سے ہی رکھتا ہے
وہ عیار ہے عشق
ورنہ دراصل نہ کافر ہے نہ
دیندار ہے عشق
آرزومند ہے اس کا بدل وجاں
کوئی
ذکرسن سن کے ہوا جاتا ہے
حیراں کوئی
خانہ بربادکوئی،چاک گریباں
کوئی
فرطِ حیرت سے ہے انگشت بدنداں کوئی
کوئی مجبور اِدھر ہے ،کوئی
ناچاراُدھر
خستہ دل خستہ جگرچار
اِدھرچار اُدھر
نوحۂ غم کوئی بیتاب وتواں
کرتا ہے
کوئی روروکے مصیبت کا بیاں
کرتا ہے
کوئی ساکت ہے کوئی آہ
وفغاں کرتا ہے
حال دل کوئی نہاں کوئی
عیاں کرتا ہے
خفقانی ہے کوئی آپ سے باہر
کوئی
مبتلا ہے کسی آفت میں غرض
ہرکوئی
روشِ جور حسینوں کو سکھاتا
ہے یہی
خون عشاق کو فرقت میں
رلاتا ہے یہی
فتنے عالم میں جو اٹھتے
ہیں اٹھاتا ہے یہی
قصہ کوتاہ ستم سینکڑوں
ڈھاتا ہے یہی
ہم تو حیرت میں ہیں کہ کیا عشق کا عالم لکھیں
دل کی آفت کہیں یا جان کا
ماتم لکھیں
وہ بھی دن یاد ہیں جب ہم
کو یہ آزار نہ تھا
دل کسی نرگس بیمار کا
بیمار نہ تھا
چین کرتے تھے ہمیں غم
سےسروکار نہ تھا
چاہ ان زہرہ جبینوں کی نہ
تھی پیارنہ تھا
رات دن عیش کے سامان رہا
کرتے تھے
عجب آرام سے ہر آن رہا
کرتے تھے
ہم نہ تھے عشق کی شوریدہ
سری سے واقف
دل نہ تھے لذتِ زخم جگری
سے واقف
لب نہ تھے آہ وفغانِ سحری
سےواقف
دست بیکار نہ تھے جامہ دری
سے واقف
وہم میں بھی نہ گذرتا تھاپریشاں
ہونا
ہم تھے اور آٹھ پہر شوق سے
خنداں ہونا
کسی مہوش کی ہمیں منتظری
کاہے کو تھی
مثل گیسو کوئی آشفتہ سری
کاہے کو تھی
دمبدم شدت درد جگری کاہے
کو تھی
لب کہاں خشک تھے آنکھوں
میں تری کاہے کو تھی
چشم بیدار سے کب اشک رواں
رہتے تھے
ہم تپاں صورتِ سیماب کہاں رہتے
تھے
ہم سمجھتے ہی نہ تھے غم کی
حقیقت کیا ہے
عشق کہتے ہیں کسے دردِ
محبت کیا ہے
حسن کیا شے ہے ادا کیا ہے
نزاکت کیاہے
کس طرح آتا ہے دل آنے کی
صورت کیا ہے
کس طرح ہجر میں بیتاب رہا
کرتے ہیں
کس طرح دردوغم ورنج سہا
کرتے ہیں
اس سے غافل تھے دل آزار
کسے کہتے ہیں
دام الفت کا گرفتار کسے
کہتے ہیں
طالبِ لذت آزار کسے کہتے
ہیں
بیوفا کس کو وفادار کسے
کہتے ہیں
ان بتوں سے بخدا ہم کوکوئی
کام نہ تھا
رخ و گیسو کا تصور سحروشام
نہ تھا
جانتے ہی نہ تھے ہو جاتے
ہیں شیدا کیونکر
رنج اٹھاتے ہیں ،سہا کرتے
ہیں ایذا کیونکر
آتش عشق جلاتی ہے کلیجا
کیونکر
خاک ہوجاتے ہیں ارمان
وتمنا کیونکر
کس طرح دل ہدف تیر ِادا
ہوتا ہے
کس طرح دل تہ شمشیر جفا
ہوتا ہے
چاک کیوں کرتے ہیں عشاق
گریبانوں کو
بستیاں چھوڑ کے کیوں جاتے
ہیں ویرانوں کو
کیا مزا ملتا ہے ان باتوں
میں دیوانوں کو
مفت برباد کیا کرتے ہیں
کیوں جانوں کو
کیوں ستم سہتے ہیں ،کیوں
وقف جفا رہتے ہیں
کس لیے جینے سے کمبخت خفا
رہتے ہیں
میں کروں میل بتوں سے مری
عادت ہی نہ تھی
ٹوٹ کر آئے کسی پر وہ
طبیعت ہی نہ تھی
خوش جمالوں میں کسی سے
مجھے الفت ہی نہ تھی
مختصر یہ ہے کہ ان باتوں
سے رغبت ہی نہ تھی
گلشنِ دہر میں مجھ سا کوئی آزاد نہ تھا
باب پنجم بھی گلستاں کا
مجھے یاد نہ تھا
مگر افسوس کہ تقدیر میں
تھی اک ٹھوکر
ناگہاں میں پئے تفریح اٹھا
وقتِ سحر
لطف نظارہ کی حویا تھی جو
اس وقت نظر
ایک گلزا رملا مجھ کو سر
راہگذر
مائل سیرشدم با دل شاداں
رفتم
بہ تماشائے گل و لالہ
وریحان رفتم
اللہ اللہ وہ صفا ،وہ
جوروشوں کا جوبن
وقت وہ صبح کا ،وہ نغمۂ
مرغان چمن
وہ لہکتا ہوا سبزہ،وہ
مہکتا گلشن
اور چلنا وہ نسیم سحری کا
سَن سَن
دہن غنچہ کا بیساختہ خنداں
ہونا
نکہتِ گل کا ہوا سے وہ
پریشاں ہونا
قابل دید وہ آزادی سرو لب
جو
قمریوں کی وہ دل آویز صدائے کوکو
فرحت افزا ئے دل وجاں وہ
چمن کی خوشبو
شاخ گل پر وہ عنا دل کے
ترانے ہرسو
وہ ہنسی طوطی خوشگو کی شکر
بار کہیں
رقصِ مستانہ وہ طاؤس کا
ہربار کہیں
بھینی بھینی وہ مہک ،غنچہ
وگل کی وہ بہار
بلبلوں کا وہ
چہکنا،وہ پپیہوں کی پکار
نوجوانانِ چمن کی وہ قرینے
سے قطار
جھومنا سروکا مستوں کی طرح
وہ ہربار
طائروں کا وہ ہوا کھاکے
کہیں گرمانا
اڑکے اِس شاخ سے ُس شاخ پر
آجانا
فرحت انگیز وہ شادابی
گلہائے چمن
جس کے نظارے سے ہوتی تھیں
نگاہیں روشن
کہیں گل ہائے شگفتہ سے
مہکتا گلشن
کہیں سوسن،کہیں نرگس،کہیں
نسرین وسمن
اوربھی ان کے علاوہ تھے
کئی قسم کے پھول
نئےانداز،نئے رنگ ،نئی قسم
کے پھول
پھوٹتے تھے کسی گوشہ میں
کہیں فوارے
اڑتے پھرتے تھے پرندے کہیں
پیارےپیارے
صحنِ گلشن میں شجر جھوم
رہے تھے سارے
جامے میں گل نہ سماتے تھے
خوشی کے مارے
دل اڑائےلیئے جاتی تھی ہوا
گلشن کی
گھیر لیتی تھی آنکھوں میں
فضاگلشن کی
جس طرف شوق سے اٹھ جاتی
تھیں نظریں اک بار
لوٹنا چاہتی تھیں وہ نہ
اُدھر سے زنہار
صحنِ گلزار تھے یا دامن
فیضان ِبہار
کہ جدھر دیکھیئےپھولوں کے
لگے تھے انبار
گیت مرغان چمن مل کے بہم
گاتے تھے
ہرطرف گل ہمہ تن گوش نظر آتے
تھے
میں بڑے شوق سے پھرتا تھا
چمن کے اندر
دیکھتا بھالتا ہراک شے کو
اِدھر اوراُدھر
جا پہنچتا تھا ٹہلتا روشِ
گلشن پر
لطف اٹھاتی تھی ،مزے لوٹتی
تھی میری نظر
کبھی یہ اور کبھی وہ گل تر
دیکھ لیا
مل گیا ایک نیا لطف جدھر
دیکھ لیا
غرض اس قصر کے نزدیک کہیں
جاپہنچا
سامنے وسطِ چمن میں جو نظر
آنا تھا
دیکھ کر اس کی وہ رفعت وہ
بنائے زیبا
جوشِ فرحت سے یہ بیساختہ
لب پرآیا
واہ کیا قطع ہے کیا شان ہے
اللہ اللہ
خوش نما کیسا یہ ایوان ہے
اللہ اللہ
اسی ایوان کی جانب تھا
ابھی میں نگراں
کہ دریچے سے برآمد ہوئے
چند آفتِ جاں
حسن ایساکہ جو دیکھے ہو وہ
حیراں
دیکھتا ہی رہے حیرت سے
برابر انساں
نازوانداز وہ آفت کہ
عیاذًا باللہ
چتونوں میں وہ شررات کہ
عیاذًا باللہ
دلربا برق ادا ،شوخ نظر
،بانئ شر
فتنہ خو،عربدہ
جو،سحرنما،شعبدہ گر
خوش نما یہ اگر اُس سے تو
وہ اس سے خوشتر
مثل اس کا نہ زمانے میں،
نہ اس کا ہمسر
بادۂ حسن کا پُرجوش خمار
آنکھوں میں
عشوہ آنکھوں میں پیار
آنکھوں میں
کان کا وصف ہے امکانِ بشر
سے باہر
غیرتِ کانِ جواہر انہیں
کہئے کیونکر
دونوں رخسار وہ تابندہ کہ
خیرہ ہو نظر
روشن ایسا رخِ روشن کہ خجل
شمس وقمر
اللہ اللہ وہ رخشدہ جمال عارض
ماہ دو ہفتہ اک ادنیٰ ہے
مثال عارض
روئے روشن میں وہ بیٹی کی
ضیاء صلی علیٰ
شمع رخسار کی لو سے الف
ماہ بنا
درمیاں آنکھوں کےاس طرح
تھا جلوہ اس کا
ہاتھ میں مردم بیمار کے جس
طرح عصا
لب خوش رنگ عقیق یمنی سے
بڑھ کر
دردنداں بھی تھے درعدنی سے
بڑھ کر
نرم وخوش رنگ تھا وہ سبب
زنخداں اُن کا
جس کے نظارے سے ہر دل میں
ہو رغبت پیدا
شمع کا فورسا روشن وہ
گلوئے زیبا
مثل پروانہ ہوجس پر دل
بیتاب فدا
یوں بھی پر نور بنائے تھے
خدا نے شانے
اورچمکا دئے گردوں کی ضیاء
نے شانے
وصف کیااور سردست ہواُن
ہاتھوں کا
کہئے ان کو شجر حسن کی شاخ
ِزیبا
روکش پنجہ خورشید کلائی کی
ضیاء
پنجہ وہ پنجہ سرجاں سے جو
خوشرنگ ہوا
وہ ہتھیلی کہ جو تابش میں
قمر سے بڑھ کر
نازک اس طرح کہ برگ ِگل تر
سے بڑھ کر
کس کی تشبیہہ سے تحریر ہو
حال انگشت
صورت خامۂ مالی ہے مثال
انگشت
اس سے بڑھ کر نہیں کچھ اور
کمال انگشت
چٹکیاں لے دل ِ عاشق میں
خیالِ انگشت
ماہ نو سے کہیں تابندہ سوا
ہرناخن
حسن میں شکل میں ابرو کے
برابر ناخن
سینہ وہ نور سے معمورکہ
شرمندہ ہو ماہ
شکم اس طرح مصفا کہ پھسل
جائے نگاہ
موشگافی تو مری فکر نے کی
خاطر خواہ
اس نزاکت کی مگر حد بھی ہے
اللہ اللہ
اُس کا زانوئے مصفا تھا وہ
نرم و خوشتر
لوٹ ہی جائے جو عشاق کو
آجائے نظر
شاخ بلور سے ساقوں کی
صفائی بڑھ کر
جن سے شرمندہ ہو رنگِ شفق
و نور سحر
پائے رنگیں سے ہو رخسار
پری شرمندہ
طرز رفتار سے ہو کبک دری
شرمندہ
جلوہ افروز جدھر تھا وہ
مصفا پیکر
اُسی جانب نگراں میں بھی
تھا لیکن ششدر
لڑگئی اتنے میں اک بار نظر
سے جونظر
آئی سینے سے ند اہائے دل
وہائے جگر
مضطرب از اثر صدمۂ جانکاہ
شدم
ہدف ناوک دلدوز بناگاہ شدم
یک بیک اُس نے جو آنکھوں
سے ملائیں آنکھیں
دیکھتے دیکھتے آنکھوں میں
سمائیں آنکھیں
کچھ اس انداز سے ظالم نے
دکھائیں آنکھیں
کہ مری آنکھوں سے دل میں
اتر آئیں آنکھیں
یوں ہوا تیر نظر آکے ترازو
دل میں
دل ہی قابو میں رہا اور نہ
قابو دل میں
اڑگئے ہوش تڑپ کر جو گری
برنگاہ
خردوتاب ونواں جل کے ہوئے
خاک سیاہ
دل نے جب زور سے اک درد بھری کھینچی آہ
میں بھی بیدم ہوا کہتا ہوا
انا للہ
نازک اس درجہ نظر آئی جو
حالت میری
ہاتھ ملنے لگی سرپیٹ کے
حسرت میری
نگراں تھا کبھی میں اپنے
جگر کی جانب
کبھی اس شوخ کی دزدیدہ نظر کی جانب
دیکھتا کیا کسی رشکِ گل تر
کی جانب
ٹکٹکی بند ھ گئی اُس بانی
شر کی جانب
تھی عجب کشمکش عشق سے حالت
میری
دمبدم رنگ بدلتی تھی طبیعت
میری
اُڑ گیا دیکھ کے یہ رنگ وہ
پریوں کا پرا
ہوش میں آکے جو دیکھا تو
وہاں کوئی نہ تھا
ہوگیا آنکھوں سے اوجھل جو
وہ خورشید لقا
چھاگئی رنج کی دل پر میرے
گھنگھورگھٹا
دردسینے میں اٹھا ضبط کی
طاقت نہ رہی
دل گیا ہاتھ سے قابو میں
طبیعت نہ رہی
آہ باقی نہ رہے صبروقراروآرام
غم واندوہ نے آآکے کیا دل
میں قیام
نظر آیا نہ مجھے جب وہ بت
حشر خرام
میں بھی راہی ہواکرتا ہوا
یہ دل سے کلام
حیف درچشم زدن صحبت یارآخر
شد
روئے گل سیر ندیدم و بہار
آخرشد
گھر میں داخل ہوا جس وقت
کہ میں سینہ فگار
ہوگیا اور بھی مضطر دل بے
صبروقرار
لاکھ چاہا مگر آرام نہ آیا
زنہار
پھرروانہ ہوا دل تھام کے
سوئے گلزار
اب جو پہنچا تو عجب طرح کا
عالم دیکھا
سارا سامانِ طرب درہم
وبرہم دیکھا
وحشت آتی تھی ،وہ سنسان
پڑا تھا گلزار
نہ وہ پہلی سی فضا تھی ،نہ
وہ رونق نہ بہار
قمریوں کی نہ وہ
"کوکو"نہ پپیہوں کی پکار
نہ وہاں حوروں کا جھرمٹ
تھا نہ پریوں کا اتار
شاخِ گل خشک تھی ،منھ زرد
تھا ہر اک گل کا
چہچہے کیسے پتہ بھی تونہ
تھابلبل کا
گلِ گلزار نہ تھا لطف مجھے کیا ملتا
سیرتوجب بھی تھی کہ وہ
غنچہ دہن آ ملتا
مجھ سے ہرچند نہ وہ جانِ
تمنا ملتا
میں مگر بڑھ کہ بصد شوق
اسے جا ملتا
میرے دل ہی میں رہی دل کی
یہ حسرت افسوس
دیکھنے کو نہ ملی مجھ کو
وہ صورت افسوس
آمدورفت یونہی شام وسحر
جاری تھی
اس پری چہرہ کی ہرلحظہ
طلبگاری تھی
لاکھ ملنے میں نہ دقت تھی
نہ دشواری تھی
لیکن اس شوخ کو منظوردل
آزاری تھی
وہ بت آئینہ وہ شکل دکھاتا ہی نہ تھا
کبھی گلگشت چمن کے لیئے
آتا ہی نہ تھا
مضطرب تھی تپ فرقت سے
طبیعت میری
دمبدم بڑھتی ہی جاتی تھی
مصیبت میری
آخر کار ہوئی غم سے یہ
نوبت میری
اڑگئے ہوش توفق ہو گئی
رنگت میری
بحرغم شدت گریہ سے رواں
ہونے لگا
دل کا تو حال تھا آنکھوں
سے عیاں ہونے لگا
کیا کہوں میں جو گذرتی تھی
مصیبت مجھ پر
کیا بتاؤں کہ ہوا کرتی تھی
کس طرح بسر
جان تنگ آگئی تھی ظلم وستم
سہہ سہہ کر
رات بھر ہجر میں نالےتھے
تو آہیں دن بھر
دل بیتاب سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہ تھا
کچھ پریشان تھا ایسا کہ
بہلتا ہی نہ تھا
کامیابی تو بظاہر تھی بہت
ہی دشوار
نظر آتی تھی نہ اس کی کوئی
صورت زنہار
یہ کرم رحمت باری نے کیا
آخر کار
کہ ہو اطالع خوابیدہ یکایک
بیدار
غیب سے میری مسرت کا
سرانجام ہوا
دل کو جس کام کی حسرت تھی
وہی کام ہوا
اُسی گلزار میں اک دن جو
ہوامیرا گذر
اور پھر بیٹھ گیا ضعف سے
میں زیر شجر
آئی ہوں گی ابھی دوچار ہی
آہیں لب پر
کہ یکایک وہی سفاک،وہی غارتگر
مثل ِخورشید اُسی قصر
کےدرسے نکلا
دل پکارا وہ قمر برج قمر
سے نکلا
پہلے خوب اُس نے
اِدھراوراُدھر دیکھ لیا
ہرطرف دیکھ کے آہستہ مری
سمت بڑھا
خوش خرامی کا وہ انداز کہ
دیکھا نہ سنا
مختصر یہ ہے کہ بیساختہ دل
لوٹ گیا
ایک تو چلنا بڑی شوخی سے
پھر اٹھلانا کبھی
شرم کے ساتھ وہ بڑھتا بھی
جھجک جانا بھی
راست ہےا س قدموزوں کو جو
طوبیٰ کہیئے
سچ ہے عارض کواگر چاند کا
ٹکڑا کہیئے
زلف کو مارسیہ کہیئے چلیپا
کہیئے
دہن تنگ کو نکتہ کہ معما
کہیئے
کاکلیں دور سے پرپیچ نظر
آتی تھیں
بحر ظلمات کی لہریں تھیں
کہ لہراتی تھیں
قد وہ بوٹا سا قیامت سے
بڑا ہائے ستم
تاکمر آئی ہو زلفِ روتا
ہائے ستم
لب میں وہ نیم تبسم کی ادا
ہائے ستم
اوراُس پر دُردنداں کی ضیا
ہائے ستم
جلوہ فرما تھا اس انداز سے
وہ گلشن میں
کوند کر برق گرے جیسے کسی
خرمن میں
حسن میں مہر منور سے زیادہ
تھا وہ بت
سرسےتا ناخن پاحسن کا پتلا
تھا وہ بت
اور اب اس کے سوا کیا کہوں
میں کیا تھا وہ بت
قدرت خالق یکتا کا نمونا
تھا وہ بت
قدقیامت کا الف فتنہ
نژادآنکھیں تھیں
لائق دید تھارخ، قابل صاد
آنکھیں تھیں
بال اڑتے ہوئے چہرے یہ
ادھر اور اُدھر
دونوں رخسارچمکتے ہوئے
مانند قمر
دیکھنا اپنی ادا آپ کبھی
رہ رہ کر
گاہ سینے کی طرف گاہ
نظرسوئے کمر
نازوانداز سے چلنا کبھی دو
چار قدم
روک لینا کبھی کچھ سوچ کے
اکبار قدم
وہ جبیں ہنستی ہوئی مثل
سحر ہائے غضب
دونوں لب غیرتِ برگ گل تر
ہائے غضب
مار زیف ایک ادھر،ایک اُدھر
ہائے غضب
وہ لچکتی ہوئی باریک کمر
ہائے غضب
قہر اس پرستم ایجاد کی
دھانی پوشاک
اورپھرمظہر آغاز جوانی
پوشاک
جنگجو چشم بڑی ملحد،نہایت
سفاک
جس سے لڑجائے وہ بیچارہ ہو
بے موت ہلاک
دل اڑا لینے میں وہ پنجہ
مژگاں چالاک
ناوک افگن وہ نگہ،رحم سے
خالی بیباک
سینہ عاشق کاپاجائے
توچھلنی کردے
سینکڑوں تیروں سے ترکش کی
طرح گھر بھردے
آخرکاروہ بت میرے قریں
آپہنچا
ماہرہ،سیم بدن،غارت دیں
آپہنچا
جان کا راحت ِ جاں دل کا مکیں آپہنچا
میں جہاں تھا وہ ستمگر بھی
وہیں آپہنچا
کچھ اس انداز سے وہ آئینہ
رخسار آیا
دل کی حیرت یہ پکار اٹھی
کہ ہشیار ،آیا
آکے چپ چاپ کھڑا ہوگیا وہ
ماہ لقا
بات چیت اُس سے ہی کی اور
نہ مہیں کچھ بولا
چند لمحہ تو خموشی کا یہی
حال رہا
نہ اُدھر کوئی صدا تھی نہ
ادھر کوئی صدا
جذبہ عشق نے تاثیر دکھائی
آخر
لب پہ اس شوخ کے تقریر یہ
آئی آخر
کچھ کہو تو سہی یہ حال یہ
نقشا کیا ہے
کیوں پریشان سے ہو دل کی
تمنا کیا ہے
رنگ چہرے کا اڑا جاتا ہے
صدما کیا ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ
معما کیا ہے
آخر اس باغ میں کیوں آئے ہو آنے کا سبب
آہیں کرنے کا سبب ،اشک
بہانے کا سبب
کون سی فکر ہے کس بات کا
ہے تم کو الم
رنگ کیوں زرد ہے کیوں بہتے
ہیں آنسو پیہم
بیٹھے بیٹھے تڑپ اٹھتے ہو
یہ ہے کیا عالم
کس لیئے کرتے ہو دل تھام
کے آہیں پیہم
کیوں رہا کرتے ہو بے حال
بتاؤ تو سہی
دل کا کیا حال ہے کچھ ہم
کو سناؤتوسہی
کیا ہوا کس لیئے ہےآ پ کو
غم ہم تو سنیں
آپ پر کس نے کیئے جوروستم ہم
تو سنیں
باعثِ صدمہ واندوہ و الم
ہم تو سنیں
کس لیئے ہوش وخرد کرگئے رم
ہم تو سنیں
کچھ تو فرمائیے یہ گریہ و
زاری کیوں ہے
کیوں ہے یہ جامہ دری سینہ
فگاری کیوں ہے
حال اس بت نے باصرارجو
پوچھا ہم سے
نہ چھپا ہو ہی گیا رازدل
افشا ہم سے
کہدیا ہم نے یہ کیسا ہے
تقاضا ہم سے
تم تو خود جانتے ہو پوچھتے
ہو کیا ہم سے
اور اس میں بھی تجاہل ہے
تو پھر بسم اللہ
لوسنو کان لگا کر سبب ِ
نالہ و آہ
مبتلائے الم و رنج ہوں ہم
شام وپگاہ
اورتم کو کوئی پرواہی نہ
ہو واہ جی واہ
کیایہی ہوتی ہے الطاف
وترحم کی نگاہ
واہ کیا بات ہے ،کیا بات
ہے سبحان اللہ
ہم تمہارا ہی کریں ذکرخدا
کی قدرت
اورتم کو نہ ہو کچھ فکرخدا
کی قدرت
تم ہمیں دھیان میں لاتے
نہیں اللہ اللہ
ہم بلاتے ہیں تم آتے نہیں
اللہ اللہ
روئے پرنوردکھاتے نہیں
اللہ اللہ
بلکہ آوازسناتے نہیں اللہ
اللہ
یہ غرور اور یہ نخوت تمہیں
اللہ کی شان
ہم سے بے وجہ نفرت
تمہیں اللہ کی شان
پھر یہ تاکید کہ حال دل
بیمار کہو
کون سا عارضہ ہے کون سا
آزار کہو
جان ہے کون سی آفت میں
گرفتار کہو
کس لیئے کھینچتے ہو آہ
شرربار کہو
سبب رنج والم کیا ہے
بتادوہم کو
اپنا گذراہو افسانہ
سنادوہم کو
کس سے سیکھا ہے بتاؤ تو یہ
قضا کہنا
سارے عالم سے جدا سب سے
نرالا کہنا
واہ کیا خوب یہ فقرہ ہے
نیا کیا کہنا
اک ذراپھر اُسی انداز سے
کہنا کہنا
ہاں مجھے پھر وہی تاکید
دوبارہ ہوجائے
ہاں پھراحوال سنانے کا
تقاضا ہوجائے
جھوٹ سچ حال سنانے کی بھی
کیا خوب کہی
میں بھی قربان ،مرادل بھی
فداخوب کہی
بات مطلب کی ہےاے ماہ لقا
خوب کہی
مجھ کو ناچاریہ کہنا پڑ
اکیا خوب کہی
آپ ہی تو غم فرقت سے ستانا
کیا خوب
اورپھر آپ ہی باتوں میں
اڑانا کیا خوب
زندگی ہے ہمیں بھاری تمہیں
پرواہی نہیں
دل کو ہے چاہ تمہاری تمہیں
پروا ہی نہیں
کرتے ہیں گریہ وزاری تمہیں
پروا ہی نہیں
ہائے افسوس ہماری تمہیں پروا
ہی نہیں
دل پریشان ہے گھٹتی ہے
طبیعت اس سے
تمہیں منصف ہو کریں اس کی
شکایت کس سے
سن چکا میری یہ تقریر تو
رہ غنچہ دہن
بول اٹھا شان تجاہل سے بدل
کرچتون
کیا کہوں دل کو جواس
وقت ہوئی ہے الجھن
یہ نئی طرز کی باتیں ہیں
نئی طرزِ سخن
صاف کہتے ہو مگر کچھ نہیں
کھلتا کہنا
بات کہنا بھی تمہارا ہے
معما کہنا
جنبشِ لعل لب یار کا اللہ
رے اثر
زندگی حسرت ِ مردہ کو ملی
باردگر
نگہ ناز میں اخلاص کےتیو
رپا کر
یہ بڑھا ولولۂ شوق کہ بے
خوف وخطر
میں نے بےساختہ لپٹا ہی
لیا سینے سے
دیر تک اس کو جدا پھر نہ
کیا سینے سے
اس طرح ملنے سے ہنسنے لگی
قسمت میری
کھل گئی پھول کے مانند
طبیعت میری
قابل دید تھی اس وقت مسرت
میری
کیاکہوں میں جوخوشی سے
ہوئی حالت میری
بخت نے شکر خدا کرکے کہا
واہ رے میں
حسرت وصل پکار اٹھی کہ
اللہ رے میں
یوں یکایک جو موافق ہوئی
قسمت آخر
اُن کے دل میں بھی
اثرکرگئی الفت آخر
بڑھتے بڑھتے یہ بڑھی پھرتو
محبت آخر
کہ انہیں شاق گذرنے لگی
فرقت آخر
بہرگلگشت چمن شام وسحر آنے
لگے
نخل امید وتمنا میں ثمر
آنے لگے
دیر ہو مجھ کوکسی دن تو
خفا ہوجانا
روٹھنا باب شکایات کا
واہوجانا
غضب وغیظ سے سو حشربپا
ہوجانا
ترک سب مشغلۂ
مہرووفاہوجانا
غصہ غصہ میں پھر اظہار
محبت مجھ سے
آپ ہی آپ پھر اقرارِ محبت
مجھ سے
نشۂ عشق ومحبت سے اُدھر وہ
سرشار
اوراِدھرمیری یہ حالت کہ
دل وجاں سے نثار
بے ملے چین نہ اُن کو نہ
مرے دل کو قرار
دونوں سمت ایک سا اُنس
،ایک سی چاہ،ایک سا پیار
میں یہ کہتا تھا فدائے رخِ
تاباں ہوں میں
وہ یہ کہتے تھے ترا تابع
فرماں ہوں میں
الغرض یونہی رہا ربط محبت
دن رات
مجھ میں اُن میں نہ ہوئی
رنجش وغم کی کوئی بات
حیرت انگیز تھے جتنے تھے
میسر حالات
کیا کہوں کیسے گزرتے تھے
ہمارے اوقات
مجھ سے ہرروز وہ چھپ چھپ
کے ملاکرتے تھے
وعدہ ملنے کا بہرطوراداکرتے
تھے
ایک دن میں نے یہ کی عرض
کہ اے راحت جاں
میرا ویرانہ بھی بن جائے
کبھی رشک جہاں
ہنس پڑا پہلے تو منھ پھیر
کے وہ غنچہ دہاں
پھربڑے نازوادا سے یہ کہا
اُس نے کہ ہاں
اب یہ مطلب ہے کہ مخلوق
میں چرچا ہوجائے
سب سے پوشیدہ ہے جو راز وہ
افشاہوجائے
چاہتے یہ ہو کہ رسوا
سربازار ہوں ہم
خوب ذلت ہمیں مخلوق میں ہو
خوار ہوں ہم
دام تشنیع خلائق میں
گرفتار ہوں ہم
زیست سے تنگ ہوں ہم،جان سے
بیزار ہوں ہم
خیر صاحب جو خوشی آپ کی ہو
کیجئے آپ
لیکن اس کی کوئی صورت
توبتادیجئے آپ
آپ ہی کیئے کہ گھر آپ کے
آئیں کیونکر
سرپہ آفت جو یہ لائیں بھی
تو لائیں کیونکر
خوف کی بات ہے یہ ،خوف نہ
کھائیں کیونکر
بھید کھلنے کو ہو جس دم تو
چھپائیں کیونکر
رازافشا جو ہوا خواری وذلت ہوگی
ایک ہم اورزمانے کی ملامت
ہوگی
سن چکا میں جو یہ تقریر،یہ
حجت یہ بیاں
فرطِ حیرت سے کہا میں نے
کہ مجھ پریہ گماں
جودل و جاں سے ہوایک ایک
اداپرقرباں
وہی کمبخت کرے گا تمہیں
رسوائے جہاں
مجھے حیرت ہے مری جان یہ
کیا کہتے ہو
میں کروں گا تمہیں بدنام
بجا کہتے ہو
خوف افشا نہیں تقریرِ جفا
کاری ہے
تم سے نادان کی درپردہ یہ
ہشیاری ہے
مجھ میں تم میں اگر آئینِ
وفاجاری ہے
دل سے چاہو تو نہ مشکل ہے
نہ دشواری ہے
تم یہی کیوں نہیں کہتے
ہمیں منظور نہیں
صاف ظاہر ہے کہ مختار ہو
مجبور نہیں
عذر موقع کے نہ ملنے کا
اگر ہے اے ماہ
تووہ ایسا نہیں جو دورنہ
ہو خاطر خواہ
سن کے ہوجاؤ گے خوش تم بھی
اسی دم واللہ
مجھ سے اقرار یہ کرلو کہ
چلیں گےہمراہ
پھر ابھی سہل سی تدبیر
بتادوں تم کو
میں نے تجویز جو کی ہے وہ
سنادوں تم کو
مجھ سے یہ سن کے وہ کچھ
کہہ نہ سکے اس کے سوا
کہ ذراآپ بتائیں کہ وہ
تدبیرہے کیا
جب بتا دی انہیں تدبیر تو
ہنس کر یہ کہا
خیرمعلوم ہوا حافظ وناصر
ہے خدا
لیجیئے آئیں گے کل آپ کے
گھر آئیں گے
گوہمارے لیئے مشکل ہے مگر
آئیں گے
روز موعود کا کس رنگ سے
کھینچوں نقشا
کیا بتاؤں کہ وہ دن کیسی
خوشی کا دن تھا
میری آنکھوں نےجواُس
روزتماشا دیکھا
نہ توبھولا ہے نہ بھولے
گاکبھی اُس کا مزا
میرے گھر چھپ کے وہ پہلی پہل آنا اُن کا
ہائے وہ نیچی نگاہیں،وہ
لجانا ان کا
وہ خموشی کی ا داہائے وہ
نیچی گردن
سرمگیں چشم سے ظاہر تھی وہ
دل کی الجھن
ترپسینے سے وہ پیشانی
وروئے روشن
بےخبر کام سے اپنے ستم آرا
چتون
نہ اشارہ کوئی مجھ سے نہ لگاوٹ دل سے
نیچی نظریں بھی اٹھانا تو
بڑی مشکل سے
وہ ادائیں نہ وہ بیساختہ
پن تھا اُن کا
نہ وہ شوخی نہ شرارت کا
چلن تھا اُن کا
نہ وہ غمزے نہ وہ اندازسخن
تھااُن کا
لاجواب اپنی خموشی سے دہن
تھا اُن کا
یونہی کچھ دیر توبیٹھے رہے
گھبرائے ہوئے
سرجھکائے ہوئے،جھینپے ہوئے
شرمائے ہوئے
یونہی کچھ دیر تو
بیٹھے رہے آشفتہ نظر
پھر یکایک یہ ترددسے کہا
گھبرا کر
ہوگیا ہم کو یہاں آئے ہوئے
ایک پہر
آپ کی باتوں میں لیکن نہ
ہوئی کچھ بھی خبر
دیکھئے اس سےزیادہ نہیں
مہلت ہم کو
اب خدا کے لیئے کردیجیئے
رخصت ہم کو
کچھ توقف سےدیا مجھ کو
پیام رخصت
اڑگئے ہوش مرے سن کے کلام
رخصت
عرض کی میں نے یہ ہنگام
ِسلام ِرخصت
کہ نہ لو بہر خدا تم ابھی
نامِ رخصت
متغیر ہے غمِ ہجر سے حالت
میری
واجب الرحم ہوں میں دیکھ
لو صورت میری
ہاں اگر مجھ کو ستانا ہے
تو جاؤ صاحب
ہاں مرے دل کو دکھانا ہے
تو جاؤ صاحب
ہاں مصیبت میں پھنسانا ہے تو جاؤ صاحب
ہاں رلا کر مجھے جانا ہے
تو جاؤ صاحب
نہ سہی دل میں مرے دردکی پروا
نہ سہی
رنج کی میرے تمہیں فکر دل
آرانہ سہی
ہم جو مرنے کو ہیں تیار
تمہیں کیا مطلب
دل ہے بے چین توسرکار
تمہیں کیا مطلب
ہم ہیں جو غم میں گرفتار
تمہیں کیا مطلب
کہ یہ باتیں تو ہیں بیکار
تمہیں کیا مطلب
تم کو کیا ہجر کا غم ہوگا
تو ہوگا ہم کو
سفرملک عدم ہوگا تو ہوگا
ہم کو
سن چکے ہم سے وہ جس وقت
ہماری باتیں
اس طرح کرنے لگے پیار سے
پیاری باتیں
دل کو ہوتا ہے قلق سن کے
تمہاری باتیں
میرے شکوے ہیں حقیقت میں
یہ ساری باتیں
بات جو منھ سے نکلتی ہے
ستم ڈھاتی ہے
مجھ کو شرماتی ہے دل کو
مرے تڑپاتی ہے
میں ہوں مجبور یقیں اس کا
مگر تم کو نہیں
میری مجبوریوں پرکچھ بھی
نظر تم کونہیں
مجھ کو جس بات کا ہے خوف
وخطر تم کو نہیں
کیاکروں میں کہ میرے دل کی
خبر تم کو نہیں
کس طرح تم کو یقیں اس کا
دلائے کوئی
دل دکھانے کا اگر ہو تم
دکھائے کوئی
نہیں منظور فرقت میں
جلائیں تم کو
نہیں منظور کہ بے وجہ
ستائیں تم کو
نہیں منظور کہ ہم چھوڑ کے
جائیں تم کو
نہیں منظور کہ اس وقت
رلائیں تم کو
بھید کھل جائے گا اس واسطے
ہم جاتے ہیں
بس اسی خوف سے خالق کی قسم
کھاتے ہیں
کیوں پریشان نہ ہوں،کیوں
نہ ہو وحشت ہم کو
کہ توقف میں نظر آتی ہے
دقت ہم کو
مضطرب کرتی ہے رہ رہ کے یہ
دہشت ہم کو
کہ اٹھانا نہ پڑے کوئی
ندامت ہم کو
وقت پر چاہیئے ہردرد کا
درماں ہونا
کہ توقف کا نتیجہ ہے
پریشاں ہونا
چل دیا اٹھ کر وہ بالآخر
وہ بت غنچہ دہن
رہ گیا دیکھ کے میں جانب
چرخ پرفن
ہوئی سوزش میرے سینے میں
تو پہلو میں جلن
دل میں دردآنکھوں میں آنسو
تھے لبوں پر یہ سخن
جف در چشم زوں صحبت یار
آخر شد
روئے گل سیرندیدم وبہار
آخرشد
کشش حسن بھی کیا چیز ہے
اللہ اللہ
نگۂ شوق گئی دردتک اس کے
ہمراہ
پھرجو اوجھل ہوا آنکھوں سے
بت غیرتِ ماہ
ہوگیا خانہ عشرت مری نظروں
میں سیاہ
اُدھر اس مہر منور نے
چھپائی صورت
اورادھرشامِ شب غم نے
دکھائی صورت
دل مرا تیرگئ بخت سے
گھبراتا تھا
دیکھتا تھاجدھر اندھیرا
نظر آتا تھا
لاکھ اپنے دل بیتاب کو
بہلاتا تھا
دمبدم حال مگر غیرہوا جاتا
تھا
میں بدلتا تھا جو بیتابی
دل سے پہلو
شمع روتی تھی میرے حال پہ
آٹھ اٹھ آنسو
کچھ عجب طرح کی وحشت رہی
طاری شب ہجر
لب پر آہیں تھیں تو اشک
آنکھوں سے جاری شب ہجر
کثرت غم سے ہوئی زیست بھی
بھاری شب ہجر
کبھی زاری تھی کبھی نجم
شماری شب بھر
کیا کہوں کیسی مصیبت میں
بسر کی میں نے
مختصر یہ ہے کہ مرمر کے
سحر کی میں نے
ہوگیا درد جدائی سے مرا
حال نزار
چین آتا تھا نہ دل کو نہ
طبیعت کو قرار
زندگی اپنی نظر آتی تھی
مجھ کو دشوار
آخر الامر ہوا فضل خدائے
غفار
شب غم ختم ہوئی صبح مسرت
آئی
مضطرب جس کے لیئے دل تھا
وہ ساعت آئی
حسب عادت جو صبح دم گیا
اٹھ کے اُدھر
اُسی گلشن میں ملا مجھ کو
وہ رشک ِ گلِ تر
رنگ افسردگی دل تھا میرے چہرے
پر
میں قرب اُس کے جو پہنچا
تو وہ بولا ہنس کر
رات بھر ہجر میں روتے رہے
رونے والے
اب تک آرام سے سوتے رہے
سونے والے
سن چکامیں تو کہا میں نے
کہ اےرشکِ قمر
جتنے شکوے ہیں ترے وہ میرے
سر آنکھوں پر
لیکن افسوس کہ خودہی تو نہ
ٹھہرے مرے گھر
پھر یہ طرہ کہ میں ملزم
بھی بنوں سرتاسر
ایسا انصاف نہ دیکھا نہ
سنا عالم میں
جوسنے گا وہ کہے گا تمہیں
کیا عالم میں
شکوے ہوتے رہے کچھ دیر غرض
یونہی بہم
پھرہوئے دونوں میں پیمان
وفا کھا کے قسم
وہ بھی خوش ہوگئے
اقرارسےمیں بھی خرم
نہ رہا ان کو کوئی غم نہ
مجھے کوئی الم
ان کو شکوہ نہ رہا مجھ
کوشکایت نہ رہی
آئینہ ہوگئے دل گردِ کدورت
نہ رہی
کیا کہوں پھر تویہ حالت
ہوئی رفتہ رفتہ
پھر انہیں قدرمحبت ہوئی
رفتہ رفتہ
واقف اس راز سے خلقت ہوئی
رفتہ رفتہ
آخرکار یہ شہرت ہوئی رفتہ
رفتہ
وہ پری زاد تھا میں حسن کا
دیوانہ تھا
شمع تھا روئے منور تو میں
پروانہ تھا
سوجگہ عاشق ومعشوق میں
الفت دیکھی
یوسف مصروزلیخا کی بھی
چاہت دیکھی
لیکن ایسی کہیں دنیا میں
نہ حالت دیکھی
دل نہ اس کا سا نہ اُس کی
سی طبیعت دیکھی
فردہےعشق میں معشوق تویکتا
عاشق
ہےنئی طرز کا معشوق نرالا
عاشق
مجھ سے جو وعدہ وہ کرتے
تھے وفا کرتے تھے
حق محبت کا محبت سے ادا
کرتے تھے
بس اسی فکر میں دن رات رہا
کرتے تھے
جس سے میں خوش ہوں وہی کام
کیا کرتے تھے
باغ میں آتے تھے وہ صبح کو
بھی شام کو بھی
رخ کو دیکھتا تھا زلفِ سیہ
نام کو بھی
ملنے جلنے کا طریقہ جو یہ
تھا شام وسحر
میرے گھر بھی کبھی آجاتے
تھے موقع پاکر
عیش ہی عیش میں ہوتی تھی
میری عمر بسر
محورہتا تھا کچھ ایسا کہ
نہ تھی کچھ بھی خبر
ظلم کیا شے ہے کسےجوروستم
کہتے ہیں
غم کدھر،صدمے جدائی کے
کہاں رہتے ہیں
اِس طرف مدنظر مجھ کو
رضائے دلبر
اُس طرف میری اطاعت اُسے
منظورِ نظر
اس طرف ورد بہت خوب کا
ہردم لب پر
اُس طرف روئے سخن اُن کا
نہایت بہتر
روح و قالب کا جو رکھتے
تھے علاقا دونوں
میری بات ان کی زباں ایک
تھے گویا دونوں
میری آسائش وراحت کی اسے
فکر کمال
مجھ کو اس شوخ کے خوش
رکھنے کا ہروقت خیال
اِس طرف میری یہ حالت
اُدھر اس کا وہ حال
باغ باغ اُس سے طبیعت مری،وہ
مجھ سے نہال
مستعد وہ اُدھر الطاف وعطا
کرنے پر
میں ادھر دل کی طرح جان
فدا کرنے پر
دشمنِ عِش ہے لیکن فلک
شعبدہ گر
فکر رہتی ہے ستمگر کو یہی
شام وسحر
نہ رہے چین سے کوئی متنفس
دم بھر
مبتلائے الم ورنج
ہوہرفردبشر
دیکھ لیتا جومسرورتوجل
جاتا ہے
رنگ اس دشمن راحت کابدل
جاتا ہے
یہی کرتا ہے ستم عشق
کےبیماروں پر
یہی عشاق کو رکھ لیتا ہے
تلواروں پر
منکشف اس کی یہ حالت ہے دل
افگاروں پر
کہ لٹاتا ہے یہی ہجر میں
انگاروں پر
ٹھنڈے سینوں میں یہی آگ
لگا دیتا ہے
پھر بھڑک اٹھتی ہے جب وہ
تو ہوا دیتا ہے
فتنہ پروازودل آزاروستمکار
ہے یہ
زورچلتا نہیں جس پر وہی
مکار ہے یہ
قتل عشاق سے غافل نہیں
ہشیار ہے یہ
بانی جوروجفا درپئے آزار
ہے یہ
سینہ مجروح وجگر چاک کیا
ظالم نے
نوجوانوں کو تہ خاک کیا
ظالم نے
کبھی راحت میں کبھی رنج
ومحن میں مارا
کبھی غربت میں کبھی اس نے
وطن میں مارا
شہر میں جان نکالی ،کبھی
بن میں مارا
مرنے والوں کو غرض چشمِ
زدن میں مارا
زیست کا لطف سب ایک آن میں
کھویا اس نے
چاہ میں رہنے والوں کو
ڈبویا اس نے
دشمن جاں ستم ایجاد کی
سفاکی ہے
قہر آفت کا قیامت کی
غضبناکی ہے
چال ہربات میں،ہرحال میں
چالاکی ہے
اس کی بیداد کا
ہرفردبشرشاکی ہے
زخم خوردہ ہیں دل افگار
اسی کے ہاتھوں
پاشکستہ ہیں طلبگار اسی کے
ہاتھوں
آہ مجھ کو بھی کیا غم میں
گرفتار اس نے
آہ کر دی ستم وجورکی
بھرمار اس نے
سینکڑوں رنج دئیےسینکڑوں
آزاراس نے
کردیا مجھ کو میری جان سے
بیزار اس نے
خوب جی کھول کے ظالم نے
ستایا مجھ کو
روزبد مثل شب تیرہ دکھایا
مجھ کو
حیف ظلم کو پسند آئی نہ
راحت میری
آہ دیکھی نہ گئی اس سے
مسرت میری
روزکلفت سے بدل دی شب عشرت
میری
محو کردی دلِ معشوق سے
الفت میری
مائل جور ہوا چرخ کہن
ہائےغضب
پھرگئی چشم ِگلِ رشک چمن
ہائے غضب
یاتووہ شکل کہ تھے وہ میرے
فرمانبردار
یایہ صورت کہ ہوئے مائل
جنگ و پیکار
ہوگئی پھرتو مجھے بات بھی
کرنی دشوار
ایک کہتا تھا تو وہ مجھ کو
سناتے تھے ہزار
الفت و مہر ومحبت کی اداہی
نہ رہی
دل رخسار میں وہ بوئے وفا
ہی نہ رہی
مجھ سے پیدا ہو ارنج ان کی
طبیعت بدلی
پھرگیا دل نظر ِلطف وعنایت
بدلی
چھاگئی ایسی سرمہرومحبت بدلی
کہ یہ محسوس ہواشرط عداوت
بدلی
قہرڈھانے لگے وہ چیں بجبیں
رہنے لگے
بڑ ھ گیا جوشِ غضب برسرکیں
رہنے لگے
انقلاب ان کی طبیعت میں
ہواکچھ ا یسا
کہ انہیں نام کوبھی پاس
مروت نہ رہا
ہوگئے غیر وہ ایسے کہ تعلق
ہی نہ تھا
نہ وہ الفت ،نہ محبت،نہ مروت
نہ وفا
پیار کرنے سے میرے بڑھتی
تھی نفرت اُن کی
ہائے وہ شکل میری اوریہ
صورت اُن کی
حسرت و شوق اِدھر نخوت
پندار اُدھر
چشمِ امید اِدھر،نفرت
وانکار اُدھر
طلب ِ صلح اِدھر،خواہش
پیکار اُدھر
سرِ تسلیم
اِدھر،خنجرخونخواراُدھر
خندۂعیش انہیں،گریہ ماتم
مجھ کو
عید ہرروز انہیں اورمحرم مجھ کو
جان لینے کے لئے وہ مجھے
دم دینے لگے
بے رخی کرنے لگے صدمہ وغم
دینے لگے
دردوایذا عوض لطف و کرم
دینے لگے
قند ومصری کی جگہ شوق سے
سم دینے لگے
وہ روزوشب جب آنکھوں سے
نہاں رہنے لگے
ہم بھی دل تھام کے سرگرم
فغاں رہنے لگے
سوزش عشق سے ہرلحظہ تپاں
رہنے لگے
خستہ تن رہنے لگے ،سوختہ
جاں رہنے لگے
شدت درد سے دل سینے میں
گھبرانے لگا
اپنا جینا ہمیں دشوار نظر
آنے لگا
گذرے اس طرح کئی روزجو
باگریہ وآہ
ایک دن مل گئے گلشن میں وہ
مجھ کو ناگاہ
منتیں کرکے کہا میں نےکہ
اے غیرت ماہ
دفعۃً پھر گئی کیوں مجھ سے
محبت کی نگاہ
کیا سبب اس کایکایک جوخفا
ہوگئے تم
ہے تعجب ابھی کیا تھے
،ابھی کیا ہوگئے تم
کل کا ہے ذکرکہ محبت کا
تھا دعویٰ تم کو
کوئی محبوب نہ تھامجھ سے
زیادہ تم کو
متحیر ہوں یکایک یہ ہوا کیا تم کو
کہ ذرا بھی نہ رہی اب میری
پرواتم کو
کیوں وفا کہتے ہیں اس کو
کہ جفا کہتے ہیں
تمہیں انصاف سے کہدو اسے
کیا کہتے ہیں
کچھ مرا جرم بھی ہے میری
خطا بھی کچھ ہے
کیوں خفا ہو سببِ ترکِ وفا
بھی کچھ ہے
موجب جوروستم ،وجہ بھی کچھ
ہے
خیر یہ کچھ نہ سہی خوفِ
خدا بھی کچھ ہے
کسی بیکس کو ستانے کا
نتیجہ آخر
جانِ من دل کے جلانے کا نتیجہ
آخر
میں وہی ہوں کہ جسے کہتے
تھے تم عاشق زار
میں وہی ہوں کہ جسے دل سے
کیا کرتے تھے پیار
میں وہی ہوں کہ نہ تھاحکم
سے جس کے انکار
میں وہی ہوں کہ سمجھتے تھے
جسے تم مختار
میں وہی ہوں کہ میرے عشق
کا دم بھرتے تھے
تم وہی ہو کہ جو کہتا تھا
وہی کرتے تھے
تیور اپنے کبھی مجھ پر نہ
کڑے رہتے تھے
روٹھے رہتے تھے نہ بے وجہ
لڑے رہتے تھے
ہاتھ گردن میں محبت میں
پڑے رہتے تھے
سوکی اک بات ہے یہ لطف بڑے
رہتے تھے
بیٹھے بیٹھے یہ الجھ پڑنے
کی خو کاہیکو تھی
عادت ایسی کبھی اے عریدہ جو کاہیکو تھی
نہ سمجھتے تھے سوا میری
کسی کو دمساز
میں ہی مونس تھا فقط میں
ہی تھا اک محرم راز
کیوں نہ اس بات ک غم ہو
مجھے اے مایہ ناز
یاتووہ حال تھا یا اب ہے
یہ طرفہ انداز
صلح کا نام جو لیتا ہوں تو
لڑجاتے ہو
جتنا بنتے ہو تم اتنا ہی
بگڑ جاتے ہو
پیشترظلم کے یہ طورکہاں
آتے تھے
کیجئے دل میں ذرا غورکہاں
آتے تھے
سوچیئے یہ ستم وجور کہاں
آتے تھے
اس طرح غیظ میں فی الفور
کہاں آتے تھے
واہ جی واہ نئے خوب نکالے
انداز
چشم بددورنئی وضع نرالے
انداز
لاکھ ہم باتیں بناتے
تھےتمہارے آگے
تم مگر ایسے بگڑتے نہ تھے
پیارے آگے
لب نہ کھلتے تھے کبھی شرم
کے مارے آگے
نہ بھرا کرتے تھے اس طرح
طرارے آگے
رنگ ہی اب تو مگر اور نظر
آتے ہیں
عجب انداز عجب طور نظر آتے
ہیں
آنکھ پہلے بھی نڈر تھی مگر
ایسی تونہ تھی
نگۂ گرم شررتھی مگر ایسی
تونہ تھی
گفتگو برق اثر تھی مگر
ایسی تو نہ تھی
عادت فتنہ وشرتھی مگر ایسی
تو نہ تھی
روٹھ جاتے تھے مگر میرے
منانے کے لیئے
مجھ سے کھنچتے تھے مگر پاس
بٹھانے کے لیئے
منتیں کرتے ہیں ہم اور تم
آتے ہی نہیں
دن گذر جاتے ہیں دن شکل
دکھاتے ہی نہیں
تشنۂ وصل کی پیاس
آکےبجھاتے ہی نہیں
شربتِ دید کے دوگھونٹ
پلاتے ہی نہیں
اللہ اللہ یہ نفرت یہ
کدورت ہم سے
اے تری شان یہ رنج اتنی عداوت
ہم سے
میں وہی ہوں کہ تمہیں جس
کی رہا کرتی تھی چاہ
میرے ہی گرد پھرا کرتے تھے
تم شام ویگاہ
اب یہ کس سے کہوں کیونکر
کہوں اے غیرتِ ماہ
کہ اُس آغاز کا انجام یہ ہے آہ وصد آہ
مشق جاری ہے شب و روز دل
آزاری کی
گل ہوئی شمع ِوفا پھیل گئی
تاریکی
کیا یہی عہد کیئے تھے یہی
ہم سے اقرار
کیا یہی قول ِ وفا تھا یہی
تم تھے دلدار
کیا ہوا کرتی تھی ہم سے
یہی بیجا گفتار
کیا اسی طرح رہا کرتی تھی
ہردن تکرار
کیا یونہیں مائل پیکار رہا
کرتے تھے
کیا یونہیں درپے آزاررہا
کرتے تھے
یہی پیمان تھے ہم سے یہی
اقرار تھے کیوں
یونہیں ہربات پر انکار پر
انکارتھے کیوں
کیا تم ایسے ہی جفاکارودل
آزارتھے کیوں
یہی اندازتھے پہلے،یہی
اطوارتھے کیوں
تم اسی طرح خفاہوکے برستے
تھے کہو
ہم یونہی پیار کی باتوں کو
ترستے تھے کہو
یوں زباں آپ کی طرار کہاں
تھی پہلے
اس قدر گرمئ گفتا ر کہاں
تھی پہلے
بے سبب عادات پیکار کہاں
تھی پہلے
اب جو حالت ہے وہ
سرکارکہاں تھی پہلے
مجھ سے اس طرح خفا آپ کہاں
رہتے تھے
جھوٹ کہتا ہوں کہدیجئے ہاں
رہتے تھے
اتنی برگشتہ طبیعت کہو آگے
کب تھی
یہ بگڑ جانے کی عادت کہو
آگے کب تھی
ستم وجور کی رغبت کہو آگے
کب تھی
اب جو نفرت ہے یہ نفرت
کہوآگے کب تھی
مجھ سے اس طرح جدا رہنے کا
یارا کب تھا
اب جو انداز ہے یہ اے ستم
آرا کب تھا
آگے ہربات میں پہلو یہ
نکلتے کب تھے
نئے افسوں جو چلا کرتے ہیں
چلتے کب تھے
فقرے جس طرح کے اب ڈھلتے
ہیں ڈھلتے کب تھے
اس طرح جوش میں آآکے ابلتے
کب تھے
کب زباں آپ کی قینچی سی
چلا کرتی تھی
قطع امید یہ کس روزکیا
کرتی تھی
رنگ پررنگ بدلنا تمہیں آتا
ہی نہ تھا
زہر باتوں سے اگلنا تمہیں
آتا ہی نہ تھا
نئے انداز سے چلنا تمہیں
آتا ہی نہ تھا
دل کو تلووں سے مسلنا
تمہیں آتا ہی نہ تھا
رخ پہ اس طرح کبھی زلف نہ
لہراتی تھی
تھی تو ناگن مگر اتنے تو
نہ بل کھاتی تھی
اب تو بے وجہ جھگڑنے لگے
اللہ اللہ
مثل طاؤس اکڑنے لگے اللہ
اللہ
اپنے سائے سے بگڑنے لگے
اللہ اللہ
تم ہوا سے بھی تو لڑنے لگے
اللہ اللہ
گرم ہوجاتے ہو آنچل کے سرک
جانے پر
سرخ ہوجاتا ہے منھ زلف کے
لہرانے پر
اب وہ پہلی سی محبت ہے نہ
پیاری باتیں
رنج آمیز غم انگیز ہیں
ساری باتیں
خوں کرتی ہیں میرے دل کو
تمہاری باتیں
نہیں معلوم چھری ہیں کہ
کٹاری باتیں
تیغ کے گھاٹ مجھے تم نے
اتارا ہوتا
طعن وتشنیع کے تیروں سے نہ
مارا ہوتا
پہلے ڈھنگ نہ تھے پہلے یہ
اطوار نہ تھے
بےوفائی کے جو انداز ہیں
زنہارنہ تھے
مستعد جنگ پہ ایسے کبھی اے
یارنہ تھے
اتنےسفاک نہ تھے اتنے دل
آزارنہ تھے
برہمی اتنی طبیعت میں کہاں
تھی کہیئے
یہ گفتار تھی،ایسی ہی زباں
تھی کہیئے
ایسے جورآتے تھےتم کو نہ
جفا آتی تھی
نہ کرشمے نہ بناوٹ نہ ادا
آتی تھی
آنکھ شوخی سے نہ اس طرح
لڑا آتی تھی
آئینہ سامنے آتا تو حیا
آتی تھی
نیچی ہی رہتی تھی ہروقت
تمہاری آنکھیں
شرم کے بوجھ سے اٹھتی نہ
تھی پیاری آنکھیں
وو قدم چل کے ٹھٹھک جانے
کی عدت ہی نہ تھی
اپنے سائے سے جھجک جانے کی
عادت ہی نہ تھی
آپ ہی آپ بھڑک جانے کی
عادت ہی نہ تھی
برق کی طرح چمک جانے کی
عادت ہی نہ تھی
سخت الفاظ کبھی منھ سے
نکلتے ہی نہ تھے
تلخ کاموں کے لیئے زہر
اگلتے ہی نہ تھے
مجھ سے ان بن کے بگڑنا تمہیں آتا ہی نہ تھا
صلح ہی رکھتے تھے لڑنا
تمہیں آتا ہی نہ تھا
فقرے ہربات میں گھڑنا
تمہیں آتا ہی نہ تھا
سیدھے سادھے تھے اکڑنا
تمہیں آتا ہی نہ تھا
عجب وپندار کے انداز نکالے
تم نے
کس سے یہ سیکھ لیئےڈھنگ
نرالے تم نے
مثل بلبل کے چہکنے لگے
ماشاء اللہ
شاخ کی طرح لچکنے لگے
ماشاء اللہ
صورت غنچہ چٹکنے لگا ماشاء
اللہ
پھول کی طرح مہکنے لگا
ماشاء اللہ
قہقہے آپ کے یوں تا بہ فلک
جاتے ہیں
آہیں کیسی مرے نالے بھی تو
شرماتے ہیں
کیا ہوئی شان وہ محبوبی و
دلداری کی
کس سے سیکھی یہ نئی طرزجفا
کاری کی
انتہا بھی کوئی اے یارستم
گاری کی
حد بھی آخر کوئی اس نفرت
وبیزاری کی
جان جاتی ہے ہماری تمہیں
پرواہی نہیں
ہوگئے ایسے کہ جیسے کبھی
کچھ تھا ہی نہیں
اے ستم گر ہمہ تن ناز
سراپاانداز
اک ذرا دیکھ توانصاف سے
اپنا انداز
نہ وہ اگلی ہے اداتیری نہ
پہلا انداز
قاعدہ وضع،چلن ،طرز طریقہ
،انداز
سب نئے ہوگئےسب اورنظر آتے
ہیں
پہلے کچھ اورتھے اب اورنظر
آتے ہیں
سیکھ لی طرز جفا،شرط وفا
بھول گئی
ہائے کیا یاد کیاآپ نے کیا
بھول گئے
وہ مسرت وہ محبت کی ادا
بھول گئے
کس طرح ملتےتھےکچھ یاد ہے
یا بھول گئے
دیکھتے ہی ہمیں کھل جاتا
تھا دل گل کی طرح
ہم بھی قربان ہواکرتے
تھے بلبل کی طرح
روٹھ جاتے تھے ہم تو مناتے
تھے ہمیں
منتیں کرتے تھے پاس اپنے
بٹھاتے تھے ہمیں
نئے نداز محبت کے دکھاتے
تھے ہمیں
نہ خفا ہوتے تھے ہم نہ
ستاتے تھے ہمیں
سارے عالم سے زیادہ تمہیں
پیارے ہم تھے
مختصر یہ ہے کہ مختار
تمہارے ۔۔۔ہم تھے
یاتوہم پر وہ کرم یا یہ
ستم واہ جی واہ
ہوگئے محو وہ سب قول وقسم
واہ جی واہ
اب نہ ہے انس نہ وہ لطف
وکرم واہ جی واہ
اس تلون سے تو حیرت میں
ہیں ہم واہ جی واہ
تم ابھی چاہ ابھی رسم وفا
بھول گئے
اچھی عادت ہے کہ جو یادکیا
بھول گئے
بےوفا ہم تو جفا کو بھی
وفا ہی سمجھے
نار وابات بھی سن لو
تورواہی سمجھے
تیرے ہر غمزۂ بیجا کو بجا
ہی سمجھے
توجب اس پر بھی نہ سمجھا
تو خدا ہی سمجھے
جس طرح ہم ہیں یونہی تو
بھی پریشان رہے
یونہی ششدر رہے ،بےخودرہے
حیران رہے
مجھ سے غم خوارپر افسوس یہ
غصہ یہ ستم
میری تکلیف کی پروانہ میرے
غم کاالم
اب نہ مجھ پر وہ عنایت ہے
نہ وہ لطف وکرم
کیا ہواہوگئے کس بات پر
اتنے برہم
کون سی مجھ سے یہ فرمائیے
تقصیر ہوئی
اب نہ غم دیجئے ،مل جائیے
،تقصیر ہوئی
نفرت انصاف سے کب تک تجھے
اوناانصاف
ہے یہ انصاف کا موقع ستم
آراء انصاف
توہی منصف ہو ذراظلم ہے یہ
یا انصاف
توہی انصاف سے کہدے کہ ہے
یہ کیا انصاف
درفراقت ہدف طعنہء
اغیارشدم
خاک گردیدم
ورسواسربازارشدم
منتیں کرتے ہیں لومان لوکہنا
من جاؤ
ہم سے اتنا نہ خفا ہو،
ہمیں اتنا نہ ستاؤ
ہجر کا روز سیہ ہم کو
خدارا نہ د کھاؤ
کس طرف دھیان ہے ،کیا کرتے
ہو پیارے باز آؤ
یوں صفائی میں کدورت نہیں
زیبا دیکھو
تم پر آئینہ ہے سب حال
ہمارا دیکھو
ہاں فقط شوقِ جفا ہو تویہ
سرحاضر ہے
دل ہے تیرے لیے موجود ،جگر
حاضرہے
جومیرے پاس ہے اے رشک قمر
حاضرہے
جان بھی ہو تجھے مطلوب اگر
حاضرہے
ظلم جتنے ہوں خوشی سے ہیں
گوارا مجھ کو
ہاں نہیں ہے تو تیرے ہجر
کا یارا مجھ کو
سن کے پھر ہوگئے پہلے سے
زیادہ برہم
بولے جھنجھلا کے غرض کیا
جو کرے کوئی ستم
رونی صورت سے کسی اور کو
اب دیجئےغم
ایسی باتوں سے ہے نفرت
مجھے خالق کی قسم
آج تو آپ عجب سوانگ نیا لے
آئے
واہ کیا خوب بڑے چاہنے
والے آئے
کس نے درخواست یہ کی تھی
ہمیں چاہو صاحب
آرزو کس کی یہ تھی ہم سے
نباہو صاحب
تم تو بے وجہ ہو برہم پہ
خفا ہو صاحب
کہدیں ہم بھی جو کوئی بات
تو کیاہو صاحب
خیر اسی میں ہے کہ اب شرنہ
بڑھاؤ دیکھو
ہم کو تم اس سے زیادہ نہ
ستاؤ دیکھو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں