کلامِ
مختار ؔ
16۔ نظم۔ رنج پر رنج وہ ہروقت دئیے جاتے ہیں
رنج پر رنج وہ ہروقت دئیے
جاتے ہیں
اللہ!اللہ!ہم اس پر بھی
جئے جاتے ہیں
خود تو جو کام نہ کرنا تھا
کئے جاتے ہیں
اور اُلٹے ہمیں الزام دئیے
جاتے ہیں
کون سی بات کہی میں نے
خلافِ مسلک
کس خطا پر مرے ہونٹ سئے
جاتے ہیں
واسطہ کیا ہے غرض کیا ہے
تعلق کیا ہے
کیوں وہ طعنے ہمیں رہ رہ
کے دئیے جاتے ہیں
سر جو میرا نہ جدا ہوتو
خطا کیا اُن کی
وہ تو ہر وقت چھری تیز کئے
جاتے ہیں
یہ تو فرمائیں وہاں جانے
کا حاصل کیا ہے
کس لئے وہ مجھے لاہور لئے
جاتے ہیں
حق پسندوں کو تو ہر حال
میں آنا ہے ادھر
اُس طرف آج تو خودمطلبئے
جاتے ہیں
اُس طرف شعلہ فشانی شرر
انگیزی ہے
اِس طرف جام مئے لطف پئے
جاتے ہیں
مل کے اغیار سے یہ حال ہوا
یاروں کا
کہ عقائد سے بھی انکار کئے
جاتے ہیں
یہ بھی کہتے ہیں کہ احمد
تو نہ تھے مہدئ پاک
احمدیت کابھی پھر نام لئے جاتے ہیں
چھوڑتے ہی درِ دلدارکہیں
کے نہ رہے
کیا وہ اب بھی اُسی عزت سے
لئے جاتے ہیں
جس گلی کوچہ سے اب اُن کا
گذر ہوتا ہے
لوگ کہتے ہیں وہ خود
مطلبئے جاتے ہیں
نہ تو اپنوں سے تامل ہے نہ
بیگانوں سے
جس کسی سے بھی ملے مال لئے
جاتے ہیں
واسطہ آخرکار ان سے کہاں
تک کب تک؟
ایسے جو ہوتے ہیں وہ چھوڑ
دئیے جاتے ہیں
وسعتِ حوصلۂ فضلِ عمرکے قرباں
آج تک کام تحمل سے لئے
جاتے ہیں
پوچھنی چاہیے یارانِ طریقت
سے یہ بات
کہ وہ کیا کیا عملِ نیک
کئے جاتے ہیں
نظر غور کریں معنیِ بیعت
کی طرف
عمر غفلت میں عبث صرف کئے
جاتے ہیں
سوچ لیں پہلے ہی پرواز سے
مرغانِ حرم
کیا دئیے جاتے ہیں کیا
ساتھ لئے جاتے ہیں
درِ جاناں سے ٹلا ہوں نہ ٹلوں
گا مختاؔر
کیوں پیامی مجھے پیغام
دئیے جاتے ہیں
نوٹ : یہ نظم اخبار
"الفضل"قادیان شمارہ 3جلد 4 میں شائع ہوئی۔
(حیات حضرت مختار صفحہ259-260)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں