صفحات

بدھ، 28 دسمبر، 2016

11۔ نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے

کلامِ مختار ؔ

11۔ نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے


مندرجہ ذیل اشعار اخبارات کے ایک پرانے ذخیرہ کی مدد سے اکٹھے کر کے مجلۃ الجامعہ شمارہ نمبر2مطبوعہ 1964ءمیں شائع کیے گئےاور آج ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

نرالا مست ہوں زاہد بھی مشتاقانہ آتا ہے
کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے

نکل آیا ہے موقعہ آپ بیتی کیوں نہ کہہ ڈالوں
یہ پرسش ہو رہی ہے کیا کوئی افسانہ آتا ہے

بڑی مشکل ہے وہ بھی منحرف ہیں دل بھی برگشتہ
نہ وہ آتے ہیں قابو میں نہ یہ دیوانہ آتا ہے

کوئی وحشت زدہ کیا جانے آدابِ گلستاں کو
بجائے نغمہ لب پہ نعرۂ مستانہ آتا ہے

دل اُس در پرجو مچلا ہے تو اے مونس مچلنے دے
کہ دھن میں ہو تو قابو میں کہاں دیوانہ آتا ہے

یہ میری خفتہ بختی خواب میں بھی وہ نہیں آتے
اورآتے ہیں تو یوں جیسے کوئی بیگا نہ آتا ہے

کہاں رکتا ہے ذکرِ بادۂ ومینا و ساغرسے
جہاں بھی واعظ آتا ہےوہیں میخا نہ آتا ہے

سخن سازی یہ شوریدہ سرانِ عشق کیا جانیں
جو دل میں ہے وہی لب پر آزادانہ آتا ہے

سنا دیتا ہے ساری داستانِ شمع وپروانہ
جب اڑ کر سامنے کوئی پر پروانہ آتا ہے

مجھی سے وعدہ چشم عنایت بارہا ساقی
مرے ہی سامنے ٹوٹا ہوا پیمانہ آتا ہے

ملی یہ داد انھیں حالِ غم ِفرقت سنانے کی
کہ اس کم بخت کو بھی ہائے کیا افسا نہ آتا ہے

بڑی رنگینیاں ہیں یوں تو واعظ کی طبیعت میں
مگر منبر پہ آتا ہے تو معصوما نہ آتا ہے

وہی کھنچنا،وہی ملنا،وہی چلنا،وہی رکنا
مگر خنجر کو بھی اندازِ معشوقا نہ آتا ہے

مرے دل سے گئی ہے آرزو ان کی نہ جائے گی
مگر میرا خیال اُن کو نہ آئے گا نہ آتا ہے

حرم کی راہ بھی خالی نہیں خطراتِ پیہم سے
الٰہی کیا کروں بت خانے پر بتخا نہ آتا ہے

تیری دھن میں چلا ہے لے کے دل لاکھوں تمنائیں
بڑے پریوں کے جھرمٹ میں ترادیوا نہ آتا ہے

وہ میری اپنے دل سے گفتگو سن کر یہ بول اٹھے
کہ اس دیوانے کے پاس اوراک دیوانہ آتا ہے

زمانہ کروٹیں رہ رہ کے لیتا ہے تو لینے دو
مجھے انداز مایوساں نہ آئے گا نہ آتا ہے

وفورِ ضعف سےجنبش کی بھی طاقت کہاں لیکن
اچھل پڑتا ہوں جب ذکر مے ومیخا نہ آتا ہے

چلے آتے ہیں بے پر کی اڑاتے حضرتِ ناصح
 معاذاللہ میں سمجھا کوئی دیوا نہ آتا ہے

وہ وحشی ہوں کہ جائے سوئے ویرانہ بلا میری
جہاں بھی ایک" ہو" کہہ دوں وہیں ویرا نہ آتا ہے

یہ موجیں لے رہی ہیں زلفِ میگوں کس کے شانے پر
یہ کس کے ساتھ ساتھ اڑتا ہوا میخا نہ آتا ہے

نگاہِ دوربیں میں سرد ہے ہنگامۂ عالم
جدھر جاتا ہوں استقبال کو ویرا نہ آتا ہے

زیارت گاہ بن بیٹھا ہے اُن کا دیکھنے والا
کہ اک عالم کا عالم روز مشتاقا نہ آتا ہے

دل وارفتہ اپنی دھن سے باز آجائے ناممکن
جدھر آتا ہے آندھی کی طرح دیوا نہ آتا ہے

غضب تھی شرح غم،وہ سنگدل بھی سن کے بول اٹھا
اُسے آتا ہے افسوں جس کو یہ افسا نہ آتا ہے

نہ چھوڑے گا مجھے تو اے غم ہردوجہاں کب تک
ارے ہٹ جا خیال جلوۂ مستانہ آتا ہے

یہ حسرت لے گئی ہے مجھ کو سوبار ان کے کوچے میں
کہ وہ اک بار کہہ دیں مرا دیوا نہ آتا ہے

فقط اس آس پر جیتا رہا میں ناتواں برسوں
کہ اک ساعت میں وہ مغرورمحجوبا نہ آتا ہے

یہ فیضِ خاص ہے مختاؔر ابنِ شاہِ مینا1 کا
کہ لب پر شعر بن کر نعرۂ مستا نہ آتا ہے

1۔ حضرت  امیر  مینائی ؔ کی طرف اشارہ ہےجوحضرت حافظ صاحب کے شاعری میں استاد تھے۔

(حیات حضرت مختار صفحہ 315-318)

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں