صفحات

منگل، 6 دسمبر، 2016

روشنی

یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ7۔12

 روشنی


شاعر ایک محبت بھری دعا ہے جو سب کیلئےہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ شاعر زمینی زندگی کا سب سے طاقتور استعارہ ہے جو اپنی محبت اور استغراق سے انسانی روح کے ان خوابیدہ تاروں کو چھیڑتا ہے جو زمانی گردشوں میں اپنے لحن کھو دیتے ہیں اور شاعر ایک سرمدی اور ابدی نغمے کی سماعت کے لئے روح کو زندہ کرتا ہے مگر یہ کام مشقِ سخن سے نہیں ہوتا استغراقِ ذات سے ہوتا ہےاور اُس حال سے ہوتا ہے جو چشمے کی طرح شاعر کے اندر ہی پھوٹتا ہےاورخودبخود پھوٹتا ہے۔چشمے کا بڑا چھوٹا ہونا کوئی مسئلہ نہیں ۔اصل حقیقت وہ لذت اورتکلیف ہے جس کے جاری ہونے میں شاعر کا زیادہ دخل نہیں ہوتا۔ہاں جب آمد ہوتی ہے تو شاعر اس پانی کے لیے بند بناتا ہے ،اسے ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔سو جس درجہ کا استغراق ِذات ہوتا ہے اسی درجہ کا شعر ظہور کرتا ہے۔شاعر کبھی جانے اور کبھی انجانے پن میں ایسے رموز کا اظہار کرجاتا ہے جو تعقّلِ محض کے لیے ناممکن ہوتے ہیں۔مگر کبھی کبھی شاعر اپنے روحانی عمل میں خالص نہیں رہتااور شعر گوئی کی فرضی کاوش میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ہر چند کے یوں بھی کبھی کبھی اس کے یہاں اپنے خشک چشمے کا پانی کھنچ آتا ہے مگر یہ اس کے اصل سے علیحدہ ایک وجود ہوتا ہے جو نسبتًا ناقص ہوتا ہے ۔اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل کام ہے مگر شاعر کی مجموعی کیفیت کو سامنے رکھ کر اس ذائقے سے گزرنے والے آسانی سے اندازہ لگا لیتے ہیں۔
        شاعری اجتماعی حقیقت کا انفرادی عمل ہے اور یہ عمل عالم حواس کی یکجائی سے ظہور کرتا ہے اور یہ سب کچھ جاننے میں نہ جاننے کی حیرانی ہے کہ صرف زمینی گردشیں آسمانوں کے بھید نہیں کھول سکتیں اور اس جوہر کی شناخت یہ ہے کہ یہ اُن پر کھلتا ہے جو خود پر کھلتے ہیں۔
        ادب انسان کی جذبی اور روحانی کیفیت کا نام ہے اور جو شے جذبے اور اور روح کی غیر ہے وہ ادب کے لیے غیر ہے۔شخصیت ادب ہے اور بے شخصیت کوئی ادب نہیں ۔شخصیت اگر ہے تو زمان وذات دونہیں ایک ہیں اور ادب ایک کا نمائندہ ہے اور ایک خیر اعلیٰ ہے مگر انسان کی جبریت اسے مادے اور روح کی تنویت میں مبتلا کرتی ہے۔شخصیت سے گریز ہوکہ وابستگی اپنے اصل میں دو نہیں ہوسکتی۔زمان ومکان ،داخل خارج اور اصل غیر کسی شخصیت سے ایک ساتھ گزرتے ہیں ۔جیسے سورج سے شعاعیں ۔یہی ادبی کلیت ہے شاعری نہ اوزان کی تکرار کانام ہے اور نہ کسی شعبدہ بازی کا۔اس قسم کی ساری بحثیں اور مقدمات ان لوگوں کے ہیں جو شاعر کے احوال سے بے خبر اپنی حالتوں سے لفظوں کی ناپ تول کاکام کرتے ہیں اور یہ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور انہیں کی موجودگی سے شاعراپنی اعجازی قوت کا اندازہ لگاتا اور خوش ہوتا ہے۔
        آج کل روش یہی ہے کہ شاعر کا پہلا مجموعہ دوچار سال کی مشقِ سخن میں  آجاتا ہے ۔داد دینے والے ایک ہی لے میں سب کو داد بھی دے جاتے ہیں۔اس سے ایک تو خالص ادب کے قاری کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔دوسرے یہ کہ شاعر کی تخلیقی قوت مصنوعی داد سے بلاوجہ دب کر رہ جاتی ہے ۔الّا ماشاءاللہ کوئی شاعر خود صاحب  ذوق ہو تو اپنے تجربے اور احساس کی منزل دریافت کرتا ہے۔ورنہ مصنوعی  نقاد کی تلوار سے کٹ کر مر جاتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ باطنی حقیقتوں کا بازار اب سرد پڑ چکا ہے۔جنہیں سمجھانا ہے وہ سمجھتے نہیں۔جو سمجھنے کے اہل نہیں ہیں ان سے ہمیں کوئی نسبت نہیں۔آج کا ادب جن راہوں پر اپنے چراغ جلا رہا ہے اُس کی روشنی ان لوگوں تک بھی بڑی مشکل سے پہنچتی ہے جواس راہ کے مسافر ہیں۔بے حقیقت اور کم سواد لوگ اقتصادی بنیادوں کی مضبوطی پر کچے ادب پر پاؤں جما کر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کا مسلسل یہ کام ہے کہ اتھلی اور بے مایہ سیاست اور پینترے بازوں کو اپنا گرو قراردیں اور اس کے ذریعہ اور وسیلہ سے زندگی کی تفہیم رکھنے والوں کو پیچھے دھکیل دیں۔بہ ظاہر ان کی کامیابیاں معاشرہ میں عام بھی نظر آتی ہیں۔اخباروں کے صفحات ،عامیانہ نام نہاد ادابی رسائل وڈائجسٹوں کی خرافات اور تشہیری میڈیمز کی بے اوقات ٹیں ٹیں کی مصنوعی چکا چوند ھ نے معنی،ادراک اور عرفان کے حقیقی مفہوم ومطالب کو ایسے روند ڈالاہے اور اس طرح پامال کردیا ہے کہ اب کسی بات میں بھی اور کسی بھی حقیقت میں اتنا زور نہیں کہ وہ مادی اور جبلی آدمی کو اس کے حقیقی منصب پر لاکھڑا کرے۔
        کسی بھی نظریہ پر ایمان رکھنا بری بات نہیں لیکن اپنے نظریہ کے خلاف اپنی زندگی گزارنا ایک مکروہ عمل ہے۔مگر کیاکیا جائے کہ ہماری صدی میں چیزیں اتنی گڈمڈ ،الٹ پلٹ اور اتھل متھل ہوگئی ہیں کہ اصل اورنقل میں امتیاز کرنا مشکل سے مشکل تر ہوگیا ہے اور اتنے جھگڑے اور اتنے ہیرپھیر پڑ گئے ہیں کہ ادب جسے حالتوں کی حالت کہنا چاہئے۔بے یارومددگار اورمخدوش ہو کر رہ گیاہے۔اب توبس یہ ہے کہ پیسہ اورطاقت جہاں سے اور جس قیمت پر بھی ملے حاصل کروخواہ ضمیر داؤ پر لگا ہو یا روح اور جس وقت جس نعرے میں ذراسا بھی فائدہ ہو اس کے ہمنوا بن جاؤ اور حقیقتًا جو لوگ نیکی،سچائی اور حسن کے قائل ہیں ان کا منہ کالا کرتے چلے جاؤ۔
        مذہب کے بعد ادب ایک ایسا داعی رہ جاتا ہے جو انسان کو اس کے باطن میں زندہ کرنے کا ظرف رکھتا ہے۔اس داعیہ اور نظریہ کے زوال نے معاشرہ میں درودیوار،لباس،عام زندگی کے مصنوعی کروفر،روپیہ کو آخری قدر اور سرمایۂ افتخار سمجھنے والوں اور مادی سبقتوں کی دوڑنے انسان کو جنگل کا بادشاہ بنا دیا ہے۔
        آدمی خوب سمجھتا ہے کہ بے حسی،بے غیرتی اوراندر کا گھناؤنا پن عام ہونے کے کیا اسباب ہیں اور آدمی یہ بھی خوب سمجھتا ہے کہ اس کے کیا علاج ہیں؟مگر علاج چاہنے والے اور انسانی روح پر بہار لانے والے خود اتنے بیمار اور خزاں رسیدہ ہوچکے ہیں کہ ان کی شخصیتوں کی چھوٹی چھوٹی  بہاریں اور چھوٹے چھوٹے اجالے کا کائنات کی گہری اور دبیز تاریکی کو روشن نہیں کر سکتے۔آسمانی پانی کا تصور اوراس کا اظہار ایک ایسا گردن زدنی جرم ہے کہ نہ "ملاں "سے بچا جا سکتا ہے نہ کہ صوفی سے،نہ نام نہاد دانشوروں سے اور نہ کج نہاد سیاستدانوں سے ۔آدمی بیچارہ  جائے تو جائے کہاں۔
        یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات کے بارہ میں یہ سوچ لیا جائے کہ اس پر روشنیوں کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہوچکے ہیں۔یہ کیسے فرض کر لیا جائے کہ خالق اپنی مخلوق کو پیدا کرکے بھول چکاہے۔مگر یہ باور کرنا پڑے گا کہ اس گھور تاریکی میں کچھ چراغِ آخر ِ شب ابھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ روشن ہیں۔ یہ یقین کرنا پڑے گا کہ یہ چراغ رات کا پورا بوجھ اٹھائے ہوئے اپنے سینے جلا رہے ہیں اور یہ ہم ہیں۔
        دوش پر بار ِ شبِ غم لئے گل کی مانند
        کون سمجھے کہ محبت کی زباں ہیں ہم لوگ
        ہم جو اپنے آپ سے یہ عہد کرچکے ہیں کہ ہم اپنے چہروں کا نور کھودیں گے مگر کائنات کے حسین چہرے کو بہر طور پُرنور کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔شور مچاتے رہیں گے اور جنگ کرتے رہیں گےاورجہاں جہاں بھی جانا پڑا ہم جائیں گے اور لڑیں گے اور یہ تسلیم کرواکے دم لیں گے کہ ہم کائنات میں وحئ والہام کے حقیقی وارث ہیں اور ہماری روشنیوں سے ہی زمانہ اپنے خدوخال سنوارے گا۔
        معاشرہ لاکھ مرجائے مگر اتنا کبھی نہیں مرتا کہ وہ اصل حقیقت سے آشنا نہ ہوسکے اور اگر اتنا مرجائے تو سرے سے اس کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے اور اُسے تہذیبی زوال آجاتا ہے مگر مجھے معلوم ہے کہ یہ معاشرہ اپنے اندر ایک زندگی کی تمنا رکھتا ہے اور اپنے لوگوں کی ایک پہچان بھی رکھتا ہے۔اُسے معلوم ہے کہ ہر جگہ بازار نہیں ہے ۔ہر انسان دکاندار نہیں ہے۔ہر شے بکنے اور خریدنے کے لیے نہیں ہے۔
        مگر یہ بھی تو ہے کہ میں ،آپ،دوسرے ہم سب اپنے اپنے ذاتی میلانات ۔مذاق اور حوالے میں زندہ ہیں اور الگ الگ ایک اکائی کی صورت میں موجود ہیں۔ان سب کی ایک اکائی کیسے بنے؟ہر چند کہ یہ پہلے بھی کبھی ممکن نہ تھا اور نہ ممکن ہوگا مگر اتنا تو تھا کہ ادن کے اچھے برے ہونے کا ایک اجتماعی رویہ موجود تھا۔مگر آج لکھا لفظ ایک عجیب تنہائی کا شکار ہے۔مدعی خود لکھنے والا ہے مگرعدالت کوئی نہیں۔عدالت بنتی بھی تو 5،5،۔10،10چھٹ بھئے ادیبوں کے ٹولے کی صورت میں ۔یہ ٹولہ اسے نہیں مانتا اوروہ اُسے نہیں مانتا۔ادب کوعوام تک پہنچانے والے میڈیمز بھی خود اپنے مفادات کے اسیر ہیں اور لکھنے والے بھی اپنے احتساب میں خودفیل ہوچکے ہیں اور اپنے آپ سے شرمندہ ہیں۔
        بات یہ ہے کہ لفظ،لکھا ہوا لفظ کتنا طاقتور ہے۔اس کا فیصلہ صرف اور صرف مستقبل میں محفوظ ہےاور انسان جب خدا کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو زمینی ہار اور ملامت اور سب وشتم سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ وہ اپنے ضمیر کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے اور اپنے اندرون کی عدالت میں کھڑا ہوتا ہے۔میں آپ میں سے ہوں مگر شائد ان لوگوں میں سے بھی ہوں جو آپ کے بعد آئیں گے اور پھر جوان کے بعد آئیں گے اور پھر جو ان کے بعد آئیں گے ۔میرا وجدان،آپ کے وجدان کا ایک آئینہ ہے۔مگر آپ اس میں اپنا چہرہ اسی وقت دیکھ سکتے ہیں جب آپ آئینے کے مقابل کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے ہوں۔

عبید اللہ علیمؔ


1 تبصرہ:

  1. عبید اللہ علیم اردو شاعری میں سند کی حیثیت رکھتے ہیں ۔انہوں ذات کی گہرائیوں میں اتر کر بے مثل گوہر تلاش کیے ہیں جو ان کے مجموعے کی شکل میں ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو اجاگر کرتے اس شعر کا مضمون کہیں اور نہیں ملے گا کہ : نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوے
    چراغ خود کو نہیں دیکھتا ہے جلتے ہوئے

    جواب دیںحذف کریں