اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ81
51۔ پھر
تیر تبسّم کا نشانے پہ لگا ہے
پھر تیر تبسّم کا نشانے پہ لگا ہے
لگتا ہے اُسی زخم پرانے پہ لگا ہے
ساحل کے نشانات مٹانے پہ لگا ہے
یہ بند جو دریا کے دہانے پہ لگا ہے
رکھ لینا اسے عشق کا انعام سمجھ کر
پتھّر جو مرے آئینہ خانے پہ لگا ہے
اب آج سے اِس شہر کا ہر شخص ہے مجرم
نوٹس یہ کھلے شہر کے تھانے پہ لگا ہے
ہر لمحۂ تازہ ہے نئی شان کا حامل
دل ہے کہ اسی اگلے زمانے پہ لگا ہے
تھکتا ہی نہیں، مفت کی مَے بانٹ رہا
ہے
یہ کون ہے جو پینے پلانے پہ لگا ہے
خوشبو کو، تبسّم کو چھپا کر نہیں رکھتے
الزام یہ پھولوں کے گھرانے پہ لگا ہے
گرتی ہوئی دیوار تو گرنے کو تھی مضطرؔ!
سیلاب کا ریلا بھی ٹھکانے پہ لگا ہے
٭
… ’’ پہ
‘‘ کی پنجابیت پہ معذرت کے ساتھ۔
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں