اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ92
57۔ اس کو اتنا نہ آزمانا تھا
اس کو اتنا نہ آزمانا تھا
وہ حقیقت نہیں فسانہ تھا
شہرِ مسحور کے مسافر کا
ٹھور تھا نہ کوئی ٹھکانہ تھا
ترجمے اس کے چھپ چکے تھے کئی
دل کا قصّہ بہت پرانا تھا
عہد کو نیند آ گئی تھی اگر
جھنجھوڑنا تھا اسے جگانا تھا
سب مسافر تھے اپنے اندر کے
جو تھا اپنی طرف روانہ تھا
تو نے واعظ سے دوستی کر لی
ورنہ تو اس قدر برا نہ تھا
آنکھ کے اجنبی پرندے کو
منہ اندھیرے ہی لوٹ جانا تھا
ایک دو روز کی یہ بات نہ تھی
عمر بھر اس کو مسکرانا تھا
کیوں اکیلے الجھ گئے خود سے
تم نے مضطرؔ! ہمیں بتانا تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں