اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ55
37۔ بات سنتے نہ بات کرتے ہو
بات سنتے نہ بات کرتے ہو
کس قدر احتیاط کرتے ہو
سچ کہو! انتظار کس کا ہے
صبح کرتے نہ رات کرتے ہو
عقل کے بھی ہو زر خرید غلام
عشق بھی ساتھ ساتھ کرتے ہو
ہاتھ جاناں کے ہاتھ میں دے کر
کیوں غمِ پُل صراط کرتے ہو
چاہتے کیا ہو؟ کھل کے بات کرو
کیوں اشاروں میں بات کرتے ہو
اب وہ پہلی سی نوک جھونک نہیں
اب نہ وہ التفات کرتے ہو
پہلے اس کا جواز ڈھونڈتے ہو
پھر کوئی واردات کرتے ہو
جب بھی کرتے ہو قتل مضطرؔ کا
سرِ نہرِ فرات کرتے ہو
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں