صفحات

ہفتہ، 10 ستمبر، 2016

37۔ بات سنتے نہ بات کرتے ہو

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ55

37۔ بات سنتے نہ بات کرتے ہو


بات سنتے نہ بات کرتے ہو
کس قدر احتیاط کرتے ہو

سچ کہو! انتظار کس کا ہے
صبح کرتے نہ رات کرتے ہو

عقل کے بھی ہو زر خرید غلام
عشق بھی ساتھ ساتھ کرتے ہو

ہاتھ جاناں کے ہاتھ میں دے کر
کیوں غمِ پُل صراط کرتے ہو

چاہتے کیا ہو؟ کھل کے بات کرو
کیوں اشاروں میں بات کرتے ہو

اب وہ پہلی سی نوک جھونک نہیں
اب نہ وہ التفات کرتے ہو

پہلے اس کا جواز ڈھونڈتے ہو
پھر کوئی واردات کرتے ہو

جب بھی کرتے ہو قتل مضطرؔ کا
سرِ نہرِ فرات کرتے ہو

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں