اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ61۔62
41۔ عشق اس کے عہد میں بے دست و پا ہو جائے
گا
عشق اس کے عہد میں بے دست و پا ہو جائے
گا
آنکھ استنبول، سینہ قرطبہ ہو جائے گا
میری قسمت کی لکیریں دیکھ کر کہنے لگا
یہ لکیریں مل گئیں تو حادثہ ہو جائے
گا
ایک ہی بسترمیں ہیں سوئے ہوئے بستی
کے لوگ
صبح جاگیں گے تو باہم فاصلہ ہو جائے
گا
وہ گئے دن کا مسافر ہے، اسے ملتے رہو
ذکرِ منزل بر سبیلِ تذکرہ ہو جائے گا
رات لمبی ہے تو باہم گفتگو کرتے رہو
بات چل نکلی تو بہتوں کا بھلا ہو جائے
گا
کس لیے شرما رہے ہو آزما کر دیکھ لو
وہ بڑا زود آشنا ہے، آشنا ہو جائے گا
ہر طرف آنکھیں ہیں اس کی راہ میں لیٹی
ہوئی
آئے گا تو آئنہ در آئنہ ہو جائے گا
سربریدہ لفظ ہم سے رات یہ کہنے لگے
اب نہ بولو گے تو کاغذ کربلا ہو جائے
گا
ان بھری گلیوں میں پھرتا رَہ، اسی میں
خیر ہے
اپنے اندر جا چھپا تو لاپتا ہو جائے
گا
جب سرِ عہدِ وفا صدیاں جھنجھوڑی جائیں
گی
وقت کی زنجیر سے لمحہ رِہا ہو جائے
گا
دامنِ آواز بھر جائے گا میرے خون سے
آستیں خوش رنگ، چہرہ خوش نما ہو جائے
گا
عشق تولا جائے گا جب موت کی میزان میں
حسنِ بے پروا بھی مصروفِ دعا ہو جائے
گا
مَیں صلیبِ لفظ پہ چڑھ جاؤں گا ہنستا
ہؤا
یہ پرانا قرض بھی آخر ادا ہو جائے گا
وہ مری آواز کا قاتل بھی ہے، مقتول
بھی
میرا اس کا آج کل میں فیصلہ ہو جائے
گا
کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا عہدِ بے آواز
میں
ہم جدا ہو جائیں گے یا وہ جدا ہو جائے
گا
پھر خدائی کا کیا دعویٰ کسی فرعون نے
پھر سرِ دربار کوئی معجزہ ہو جائے گا
اکثریت کا جو تم نے سانپ تھا پالا ہؤا
کیا خبر تھی بڑھتے بڑھتے اژدہا ہو جائے
گا
بیچ کر عزّت کو نکلا تھا وہ جس کے پھیر
سے
پھر اسی چکّر میں مضطرؔ! مبتلا ہو جائے
گا
(۸۵
۔ ۱۹۸۴ء)
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں