اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ39۔40
26۔ تلاشِ منزل
تلاشِ منزل
سرابِ ریگِ رواں کے سینے پہ
چند ٹوٹے ہوئے سفینے
ضمیر کی الجھنوں کی رت میں
جہاں پہ روکا تھا چاندنی نے
نظر کے دامن کی آڑلے کر
سکوتِ صحرا میں چھپ گئے ہیں
صداؤں کے ساز پر کسی نے
ہزار لفظوں کے بند باندھے
ڈھلک گئے ریتلے کنارے
چھلک گئے غم کے آبگینے
سرکتے،کروٹ بدلتے
صحرا کے رخ پہ
پھیلی ہوئی لکیریں
زمیں کے ماتھے پہ جھرّیاں ہیں
کہ ذہنِ ماضی
ضمیرِ صحر ا پہ
وقت کے پاؤں کے نشاں ہیں
یہی نشاں ہیں
کہ جن کے بل پر
دلوں کے آذر
نظر کے زرگر
ازل کے بے کار
غم کے فن کار
فرطِ غم سے
فنا کے مندر میں
ریت کے بت بنارہے ہیں
نہ بت بنے ہیں
نہ بت پرستی
صنم تراشی سے رک سکے
بت بنانے والے
ہزاروں رہزن
کروڑوں راہی
تلاشِ منزل میں
بت کدوں کے کواڑوں کو
کھٹکھٹا رہے
ہیں
تھلوں میں جذبات کے بگولے
ہوس کے جھکّڑ
چلے عبادت گزار بن کر
بدن کے رہزن بھی ڈرتے ڈرتے
پجاریوں کا لباس اوڑھے
صنم کدوں سے کسی بہانے
بتوں کے زیور
لہو کے دانے
نہ جانے
کیسے اتار لائے
غبارِ فردا کے سائے میں
آرزو کی مورت
غموں کی دیوی
اسی پجاری کی منتظر ہے
کہ جس کے غم میں
نگاہِ گردابِ گردِ ماضی
کفِ تمنا کے بھوج پترّ پہ
زائچے سے بنا رہی ہے
یہ ان گنت
باوقار ٹیلے
دُھلی ہوئی ریت کے سپاہی
ہوا وصحرا کے نیک راہب
خموش ساحر
ذہین بوڑھے
خیال کے سارباں
ازل کے امیں
ستاروں کے رازداں
یوں ٹھٹک گئے ہیں
کہ جیسے حیران ہوگئے ہوں
جمال کی نیلگوں فضا میں
نظر کے طائر
کئی مہینوں سے
تک رہے ہیں
اداس
تنہا
امید کی کہکشاں پہ زینے لگاؤ
شاید دکھائی دے دیں
سرابِ ریگِ رواں کے سینے پہ
چند ٹوٹے ہوئے
سفینے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں