اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ19
11۔ چاند نگر کے چشمے خون اگلتے ہیں
چاند نگر کے چشمے خون اگلتے ہیں
دریا سوکھ گئے ہیں، ساحل جلتے ہیں
جھیلوں کے پردیسی بھیگی راتوں میں
رک رک کر رسّے کے پلوں پر چلتے ہیں
بارش ہو تو دھو لیتے ہیں چہروں کو
دھوپ کِھلے تو بھوک کا غازہ ملتے ہیں
جاگنے والے! اشکوں کی آواز نہ سن
آنکھ کے سورج ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتے ہیں
یاروں نے تو کب کا ملنا چھوڑ دیا
دشمن ہفتے عشرے آن نکلتے ہیں
جا رہنے کو شہر بھی ہیں، ویرانے بھی
ان کی گلی میں جائو تو ہم بھی چلتے
ہیں
دل کے ہاتھوں کس نے سکھ کا سانس لیا
دوست پریشاں حال ہیں، دشمن جلتے ہیں
ہم سیلانی، تم مالک ہو شہروں کے
عیش کرو، آرام کرو ۔ ہم چلتے ہیں
اپنے بیگانے حیران ہیں مدّت سے
حضرتِ مضطرؔ گرتے ہیں نہ سنبھلتے ہیں
۱۹۵۵ ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں