اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ147۔148
85۔ مَیں تھا یا میرا سایہ تھا
مَیں تھا یا میرا سایہ تھا
سورج جب ملنے آیا تھا
مَیں نے جب پتھر کھایا تھا
تُو نے چوٹ کو سہلایا تھا
دیواریں ہی دیواریں تھیں
در تھا نہ کوئی دروازہ تھا
دھوپ تھی اور تپتا صحرا تھا
پیڑ تھا نہ کوئی سایہ تھا
مَیں ہمسائے سے کیا لڑتا
ہمسایہ تو ماں جایا تھا
چوٹ لگی تھی میرے دل پر
تو کیوں آنسو بھر لایا تھا
صدیوں کی پیاسی تھی دھرتی
تو بارش بن کر آیا تھا
تو تھا آدھی رات کا آنسو
تو دھرتی کا سرمایہ تھا
صدیوں نے پہچان لیا تھا
لمحوں نے بھی اپنایا تھا
چاند کا چہرہ ماند ہؤا تھا
سورج کا رُخ گہنایا تھا
تیری آنکھوں میں تھے آنسو
میرا بھی جی بھر آیا تھا
اس کی چوٹ لگی تھی تجھ کو
مَیں نے جو پتھر کھایا تھا
ماضی، حال اور مستقبل پر
چاروں اور٭؎ ترا سایہ تھا
تو آئینہ در آئینہ
آئینوں سے ٹکرایا تھا
پتھر آئینے سے اُلجھ کر
دل ہی دل میں پچھتایا تھا
سورج تھا بچپن کا ساتھی
چاند پرانا ہمسایہ تھا
شہروں میں تھیں ننگی سڑکیں
بن میں سایہ ہی سایہ تھا
شجرِ ممنوعہ سے مل کر
میرا بھی جی للچایا تھا
مَیں تو شاید گم ہو جاتا
تُو تھا جو آڑے آیا تھا
اک لمحہ لمحوں سے کٹ کر
مضطرؔ سے ملنے آیا تھا
اگست، ١٩٨٨ء
٭۔۔۔۔اوربروزن شور بمعنیٰ طرف
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں