اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ121۔122
70۔ ہے سارا سوز ، سارا ساز تیرا
ہے سارا سوز ، سارا ساز تیرا
پسِ پردہ ہے سب اعجاز تیرا
اگرچہ تُو ہی اوّل، تُو ہی آخر
کوئی انجام نہ آغاز تیرا
تُو ہر اک کا ہے محرم اور ہمراز
نہیں کوئی مگر ہم راز تیرا
کروں تو مَیں کروں تجھ سے محبت
اٹھاؤں تو اٹھاؤں ناز تیرا
نہیں مظہر نہیں ہے میرے غم کا
یہ آنسو ہے فقط ّغمازاتیرا
نہیں ہے یہ صدا مجھ بے صدا کی
ہے سب پیش و پسِ آواز تیرا
مری پرواز بھی پرواز تیری
کہ مَیں تیرا، پرِ پرواز تیرا
نہ اِتراؤں مَیں کیوں سولی پہ چڑھ کر
عطاکردہ ہے یہ اعزاز تیرا
سمجھتا کیوں نہیں ہے میرا قاتل
غضب کتنا ہے بے آواز تیرا
کہاں جائے گا آدھی رات مضطرؔ!
اگر ہو گا نہیں در باز تیرا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں