اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ99
61۔ درد دے، درد کے خزانے دے
درد دے، درد کے خزانے دے
دینے والے! کسی بہانے دے
کچھ نئے رنج، کچھ پرانے دے
مجھ کو لمحے نہیں زمانے دے
بر سرِ دار آشیانے دے
بے ٹھکانوں کو بھی ٹھکانے دے
یا مرا مجھ سے فاصلہ کر دے
یا نہ احساس کے خزانے دے
اَن کہی بات کو چھپا کر رکھ
اس کو لب پر کبھی نہ آنے دے
تو اگر مسکرا نہیں سکتا
دوسروں کو تو مسکرانے دے
مجھ کو اشکوں کا آئنہ لے کر
شہرِ مسحور میں نہ جانے دے
عشق کا اندلس ملے نہ ملے
کشتیاں تو مجھے جلانے دے
شاخِ اُمّید بھی ہری ہو جائے
اس کو پت جھڑ کے تازیانے دے
رنگ بھر لینا بعد میں مضطرؔ!
مجھ کو تصویر تو بنانے دے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں