یہ
زندگی ہے ہماری۔ نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ81۔82
35۔ ربطِ غم اور خوشی ہی ٹوٹ گیا
ربطِ غم اور خوشی ہی ٹوٹ گیا
گھر میں جو تھا سبھی ہی ٹوٹ گیا
جس کے دل ٹوٹنے کی باتیں تھیں
آج وہ آدمی ہی ٹوٹ گیا
جب وہ اک شخص درمیاں آیا
خواب وہ اس گھڑی ہی ٹوٹ گیا
پھر اماں کون دے اسے جس کا
رشتۂ بندگی ہی ٹوٹ گیا
جب سے دیکھا نہیں ہے وہ قامت
نشّۂ زندگی ہی ٹوٹ گیا
کس بھروسے پہ اب جنوں کیجئے
عشوۂ دلبری ہی ٹوٹ گیا
ٹوٹتے ٹوٹتے محبت کا
رقصِ دیوانگی ہی ٹوٹ گیا
1994ء۔1995ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں