یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ51۔52
54۔ جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی
آتا ہے
جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی
آتا ہے
تو دل میں گزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا
ہے
ہرے بھرے میرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے
وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا میرا وجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِتر بھی آتا ہے
کبھی جو عشق تھا اب مکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے
ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ میرا ہمسفر بھی آتا ہے
ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا
سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے
یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز
میں آگیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے
کوئی چرا کے مجھے کیسےچھپ سکے کہ علیؔم
لہو کا رنگ میرے حرف پر بھی آتا ہے
1975ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں