یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ21۔22
39۔ خوشبو تھا اور بدن سے تنگ تھا میں
خوشبو تھا اور بدن سے تنگ تھا میں
جب شعلۂ رنگ رنگ تھا میں
سائے پہ پڑا ہوا تھا سایہ
تعبیر پہ اپنی دنگ تھا میں
میں اپنی دلیل لانے والا
ہارا تو عجب ترنگ تھا میں
تم نے مجھے اُس طرح نہ جانا
جو عالمِ خواب رنگ تھا میں
ہاتھوں سے کچھ اپنے دوستوں کے
وہ پھول پڑے کہ سنگ تھا میں
گزری ہوئی رات کی کہانی
وہ شمع تھی اور پتنگ تھا میں
پھر دہر پہ کیوں نہ پھیل جاتا
قامت پہ جب اپنے تنگ تھا میں
ترسی ہوئی روح پر زمیں کی
برسی ہوئی اِک امنگ تھا میں
اے موسمِ ذات تو بتانا
انسان کی کیسی جنگ تھا میں
1974ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں