صفحات

ہفتہ، 19 مارچ، 2016

30۔ ہائے وہ دل کہ جسے طرزِ وفا یاد نہیں

کلام محمود صفحہ56

30۔ ہائے وہ دل کہ جسے طرزِ وفا یاد نہیں


ہائے وہ دل کہ جسے طرزِ وفا یاد نہیں
وائے وہ روح جسے قول بلیٰ یاد نہیں

بے حسابی نے گناہوں کی مجھے پاک کیا
میں سراپا ہوں خطا مجھ کو خطا یاد نہیں

جب سے دیکھا ہے اُسے اُس کا ہی رہتا ہے خیال
اور کچھ بھی مجھے اب اُس کے سوا یاد نہیں

دردِ دل سوزِ جگر اشک رواں تھے مرے دوست
یار سے مل کے کوئی بھی تو رہا یاد نہیں

ایک دن تھا کہ محبت کے تھے مجھ سے اقرار
مجھ کو تو یاد ہیں سب آپ کو کیا یاد نہیں

بے وفائی کا لگاتے ہیں وہ کس پر الزام
میں تو وہ ہوں کہ مجھے لفظِ دغا یاد نہیں

میں وہ بیخود ہوں کہ تھے جس نے اڑائے مرے ہوش
مجھ کو خود وہ نگہ ہوش ربا یاد نہیں

کوچہ یار سے ہے مجھ کو نکلنا دو بھر
کیا تجھے وعدہ ترا لغزشِ پا یاد نہیں

ہائے بدبختیِ قسمت کہ لگا ہے مجھ کو
وہ مرض جس کی مسیؑحا کو دوا یاد نہیں

وہ جو رہتا ہے ہر اک وقت مری آنکھوں میں
ہائے کم بختی مجھے اس کا پتہ یاد نہیں

ہم وہ ہیں پیار کا بدلہ جنھیں ملتا ہے پیار
بھولے ہیں روزِ جزا اور جزا یاد نہیں

اخبار بدر جلد 8 ۔ 20مئی 1909ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں