کلام
محمود صفحہ54۔55
29۔ مجھ سا نہ اس جہاں میں کوئی دلفگار
ہو
مجھ سا نہ اس جہاں میں کوئی دلفگار
ہو
جس کا نہ یار ہو نہ کوئی غمگسار ہو
کتنی ہی پُل صراط کی گو تیز دھار ہو
یا رب مرا وہاں بھی قدم استوار ہو
دل چاہتا ہے طور کا وہ لالہ زار ہو
اور آسماں پہ جلوہ کناں میرا یار ہو
ساقی ہو مے ہوجام ہو ابر ِبہار ہو
اتنی پیوں کہ حشر کے دن بھی خمار ہو
جس سر پہ بھوت عشقِ صنم کا سوار ہو
قسمت یہی ہے اس کی کہ دنیا میں خوار
ہو
تقویٰ کی جڑھ یہی ہے کہ خالق سے پیار
ہو
گو ہاتھ کام میں ہوں مگر دل میں یار
ہو
دنیا کے عیش اس پہ سراسر ہیں پھر حرام
پہلو میں جس کے ایک دل بے قرار ہو
وہ لطف ہے خلش میں کہ آرام میں نہیں
تیرِ نگاہ کیوں مرے سینہ کے پار ہو
رنج فراق گل نہ کبھی ہوسکے بیاں
میرے مقابلہ میں ہزاروں ہزار ہو
جاں چاہتی ہے تجھ پہ نکلنا اے میری
جاں
دل کی یہ آرزو ہے کہ تجھ پہ نثار ہو
کیسا فقیر ہے وہ جو دل کا نہ ہو غنی
وہ زار کیا جو رنج و مصیبت سے زار ہو
خضرؑ و مسیؑح بھی نہ بچے جبکہ موت سے
پھر زندگی کا اور کسے اعتبار ہو
سنتے ہیں بعد مرگ ہی ملتا ہے وہ صنم
مرنے کے بعد ہو جو ہمارا سنگار ہو
میں کیوں پھروں کہ خالی نہیں آجتک
پھرا
جو تیرے فضل و رحم کا امّیدوار ہو
موسیٰؑ سے تو نے طور پر جو کچھ کیا
سلوک
مجھ سے بھی اب وہی مرے پروردگار ہو
معشوق گر نہیں ہوں تو عاشق ہی جان لو
اِن میں نہیں تو اُن میں ہمارا شمار
ہو
چیونٹی پہ بوجھ اونٹ کا ہے کون لادتا
اس جاں پہ اور یہ ستم ِروزگار ہو
بتلاؤ کس جگہ پہ اسے جاکے ڈھونڈیں ہم
جس کی تمام ارض و سما میں پکار ہو
قربان کرکے جان دوئی کا مٹاؤں نام
وہ خواب میں ہی آکے جو مجھ سے دو چار
ہو
شاہ و گدا کی آنکھ میں سرمہ کا کام
دے
وہ جان جو کہ راہ خدا میں غبار ہو
اخبار بدر جلد 8 ۔ 13 مئی 1909ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں