صفحات

پیر، 28 مارچ، 2016

45۔ دن آج کب ڈھلے گا ۔ کب ہو گا ظہورِ شب

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ111

45۔ دن آج کب ڈھلے گا ۔ کب ہو گا ظہورِ شب


دن آج کب ڈھلے گا،۔کب ہو گا ظہور ِشب
ہم کب کریں گے چاک گریباں۔ حضورِ شب

آہ و بکا پہ پہرے ہیں۔ دل میں فغاں ہے بند
اے رات! آبھی جا کہ رِہا ہوں طیورِ شب

ہوش و حواس گم تھے ، کسے تاب ِدید تھی
جب جگمگا رہا تھا برق تجلی سے طور ِشب

اِمشب نہ تُو نے چہرہ دکھایا تو کیا عجب
صبح کا منہ نہ دیکھے دل ناصبور ِشب

لیلائے شب کی گود میں سویا ہوا تھا چاند
سیماب زیبِ تن کئے بیٹھی تھی حورِ شب

مے سی اتر رہی تھی کواکب سے نور کی
ہر سمت بٹ رہی تھی شرابِ طُہور ِشب

ناگاہ تیری یاد نے یوں دل کو بھر دیا
گویا سمٹ گیا اسی کوزہ میں نورِ شب

اس لمحہ تیرے رشک سے شبنم تھی آب آب
مٹی میں مل رہا تھا پگھل کر غرورِ شب

سب جاگ اٹھے تھے پیار کے ارماں تہ ِنجوم
پھونکا تھا کس نے گوش محبت میں صُورِ شب

لمحات وصل جن پہ ازل کا گمان تھا
چٹکی میں اڑ گئے وہ طیورِ سرورِ شب

''الفضل انٹرنیشنل'' لندن ۔ ١٢جون ١٩٩٨


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں