صفحات

اتوار، 20 مارچ، 2016

19۔ بابِ رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا

کلام محمود صفحہ38۔39

19۔ بابِ رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا


بابِ رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا
جب تمھارا قادرِ مطلق خدا ہوجائےگا

دشمنِ جانی جو ہوگا آشنا ہوجائے گا
بوم بھی ہوگا اگر گھر میں ہما ہوجائے گا

آدمی تقویٰ سے آخر کیمیا ہو جائے گا
جس مسِ دل سے چھوئے گا وہ طلا ہوجائے گا

جو کہ شمع روئے دلبر پر فدا ہوجائے گا
خاک بھی ہوگا تو پھر خاکِ شفا ہوجائے گا

جو کوئی اس یار کے در کا گدا ہوجائے گا
ملکِ روحانی کا وہ فرمانروا ہوجائے گا

جس کو تم کہتے ہو یارو یہ فنا ہوجائے گا
ایک دن سارے جہاں کا پیشوا ہوجائے گا

کفر مٹ جائے گا زور اسلام کا ہوجائے گا
ایک دن حاصل ہمارا مدعا ہوجائے گا

مہدیٔ دوران کا جو خاکِ پا ہوجائے گا
مہرِ عالمتاب سے روشن سوا ہوجائے گا

جوکوئی تقوٰی کرے گا پیشوا ہوجائے گا
قبلہ رخ ہوتے ہوئے قبلہ نما ہوجائے گا

جس ک مسلک زھد و ذکر و اتقا ہوجائے گا
پنجۂ شیطاں سے وہ بالکل رہا ہوجائے گا

دیکھ لینا ایک دن خواہش بر آئے گی مری
میرا ہر ذرہ محمدؐ پر فدا ہوجائے گا

نقشِ پا پر جو محمدؐ کے چلے گا ایک دن
پیروی سے اس کی محبوب ِ خدا ہوجائے گا

دیر کرتے ہیں جو نیکی میں ہے کیا ان کا خیال
موت کی ساعت میں بھی کچھ التوا ہوجائے گا

دشمنِ اسلام جب دیکھیں گے اک قہری نشاں
جاں نکل جائے گی ان کی دَم فنا ہوجائے گا

نائبِ خیر الرسل ہو کر کرے گا کام یہ
وارثِ تخت محمدؐ میرزا ہوجائے گا

حکمِ ربی سے یہ ہے پیچھے پڑا شیطان کے
اس کے ہاتھوں سے اب اس کا فیصلہ ہوجائے گا

اس کی باتوں سے ہی ٹوٹے گا یہ دجالی طلسم
اس کا ہر ہر لفظ موسیٰؑ کا عصا ہوجائے گا

خاک میں ملکر ملیں گے تجھ سے یارب ایکدن
درد جب حد سے بڑھے گا تو دوا ہوجائے گا

آبِ روحانی سے جب سیراب ہوگا کل جہاں
پانی پانی شرم سے اک بے حیا ہوجائے گا

ہیں درِ مالک پہ بیٹھے ہم لگائے ٹکٹکی
ہاں کبھی تو اپنا نالہ بھی رسا ہو جائے گا

بلبلہ پانی کا ہے انساں نہیں کرتا خیال
ایک ہی صدمہ اٹھا کر وہ ہوا ہوجائے گا

سختیوں سے قوم کی گھبرا نہ ہرگز اے عزیز
کھا کے یہ پتھر تو لعلِ بے بہا ہو جائے گا

جو کوئی دریائے فکر دیں میں ہوگا غوطہ زن
میل اتر جائیگی اس کی دل صفا ہوجائے گا

قوم کے بغض و عداوت کی نہیں پروا ہمیں
وقت یہ کٹ جائے گا ،فضلِ خدا ہو جائے گا

چھوڑ دو اعمالِ بد کے ساتھ بد صحبت بھی تم
زخم سے انگور مل کر پھر ہرا ہوجائے گا

حق پہ ہم ہیں یا کہ یہ حساد ہیں جھگڑا ہے کیا
فیصلہ اس بات کا روزِ جزا ہوجائے گا

تیرا ہر ہر لفظ اے پیارے مسیؑحائے زماں
حق کے پیاسوں کے لیے آب بقا ہوجائے گا

کیوں نہ گرد اب ِہلاکت سے نکل آئے گی قوم
کشتیٔ دیں کا خدا جب نا خدا ہوجائے گا

کرلو جو کچھ موت کےآنے سے پہلے ہوسکے
تیر چھٹ کر موت کا پھر کیا خطا ہوجائے گا

عشقِ مولیٰ دل میں جب محمود ہوگا موجزن
یاد کر اس دن کو تو پھر کیا سے کیا ہوجائے گا

اخبار بدر جلد 7۔ 25جون 1908ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں