کلام
محمود صفحہ110۔111
63۔
پردۂ زلفِ دوتارُخ سے ہٹا لے
پیارے
پردۂ زلفِ دوتارُخ سے ہٹا لے پیارے
ہجر کی موت سے لِلہ بچا لے پیارے
چادرِ فضل و عنایت میں چھپا لے پیارے
مجھ گنہ گار کو اپنا ہی بنا لےپیارے
نفس کی قید میں ہوں مجھ کو چھڑا لے
پیارے
غرق ہوں بحرِ معاصی میں بچا لے پیارے
تُو کہے اور نہ مانے مرا دل ناممکن
کس کی طاقت ہے ترے حکم کو ٹالے پیارے
جلد آ جلد کہ ہوں لشکرِ اَعداء میں
گھرا
پڑ رہے ہیں مجھے اب جان کے لالے پیارے
فضل کر فضل کہ میں یکہ و تنہا جاں ہوں
ہیں مقابل پہ حوادث کے رِسالے پیارے
رہ چکے پاؤں، نہیں جسم میں باقی طاقت
رحم کر گود میں اب مجھ کو اُٹھا لے
پیارے
غیر کو سونپ نہ دیجو کہ کوئی خادمِ
در
کر گیا تھا ہمیں تیرےہی حوالے پیارے
دشت و کوہسار میں جب آئے نظر جلوۂ حسن
تیرے دیوانے کو پھر کون سنبھالے پیارے
کیوں کروں فرق یونہی دونوں مجھے یکساں
ہیں
سب ترےبندے ہیں گورے ہوں کہ کالے پیارے
ہو کے کنگال جو عاشق ہو رُخِ سلطاں
پر
حوصلے دل کے وہ پھر کیسے نکالے پیارے
مجھ سے بڑھ کر میری حالت کو یہ کرتے
ہیں بیاں
منہ سے گو چپ ہیں مرے پاؤں کے چھالے
پیارے
ظاہری دکھ ہو تو لاکھوں ہیں فدائی موجود
دل کے کانٹوں کو مگر کون نکالے پیارے
ہم کو اک گھونٹ ہی دے صدقہ میں میخانہ کے
پی گئے لوگ مئے وصل کے پیالے پیارے
گر نہ دیدار میسر ہو نہ گفتار نصیب
کوچۂ عشق میں جا کر کوئی کیا لے پیارے
فضل سے تیرے جماعت تو ہوئی ہے تیار
حزبِ شیطان کہیں رخنہ نہ ڈالے پیارے
قوم کے دل پہ کوئی بات نہیں کرتی اثر
تو ہی کھولے گا تو کھولے گا یہ تالے
پیارے
پردۂ غیب سےامداد کے ساماں کر دے
سب کے سب بوجھ مرے آپ اُٹھا لے پیارے
نام کی طرح مرے کام بھی کر دے محمودؔ
مجھ کو ہر قسم کے عیبوں سے بچالےپیارے
اخبار الفضل جلد 10 ۔8جنوری 1923ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں