صفحات

منگل، 29 مارچ، 2016

37۔ محبتوں کے نصیب

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ97۔98

37۔ محبتوں کے نصیب


مرے درد کی جو دوا کرے ۔کوئی ایسا شخص ہوا کرے
وہ جو بے پناہ اداس ہو ، مگر ہجر کا نہ گلہ کرے

مری چاہتیں مری قربتیں جسے یاد آئیں قدم قدم
تو وہ سب سے چھپ کے لباسِ شب میں لپٹ کے آہ و بکا کرے

بڑھے اس کا غم تو قرار کھو دے، وہ میرے غم کے خیال سے
اُٹھیں ہاتھ اپنے لئے تو پھر بھی مرے لئے ہی دعا کرے

یہ قصص عجیب و غریب ہیں ، یہ محبتوں کے نصیب ہیں
مجھے کیسے خود سے جدا کرے ، اسے کچھ بتاؤ کہ کیا کرے

کبھی طے کرے یونہی سوچ سوچ میں وہ فراق کے فاصلے
مرے پیچھے آ کے دبے دبے ، مری آنکھیں موند ہنسا کرے

بڑا شور ہے مرے شہر میں کسی اجنبی کے نزول کا
وہ مری ہی جان نہ ہو کہیں ، کوئی کچھ تو جا کے پتہ کرے

یہ تو میرے دل ہی کا عکس ہے ، میں نہیں ہوں پر مری آرزو
کو جنون ہے مجھے یہ بنا دے تو پھر جو چاہے قضا کرے

بھلا کیسے اپنے ہی عکس کو میں رفیقِ جان بنا سکوں
کوئی اور ہو تو بتا تو دے ، کوئی ہے کہیں تو صدا کرے

اسے ڈھونڈتی ہیں گلی گلی ، مری خلوتوں کی اداسیاں
وہ ملے تو بس یہ کہوں کہ آ ، مرا مولیٰ تیرا بھلا کرے

1996ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں