کلام
محمود صفحہ27۔29
14۔
کیوں ہورہا ہے خرّم و خوش آج
کل جہاں
کیوں ہورہا ہے خرّم و خوش آج کل جہاں
کیوں ہردیار و شہر ہؤا رشکِ بوستاں
چہرہ پہ اس مریض کے کیوں رونق آگئی
جو کل تلک تھا سخت ضعیف اور ناتواں
ان بے کسوں کی ہمتیں کیوں ہوگئیں بلند
جن کا کل جہاں میں نہ تھا کوئی پاسباں
وہ لوگ جو کہ راہ سے بے راہ تھے ہوئے
کیوں ان کے چہروں پر ہے خوشی کا اثر
عیاں
تاریکی و جہالت و ظلمت کدھر گئی
دنیا سے آج ان کا ہوا کیوں ہے گم نشاں
مجھ سے سنو کہ اتنا تغیر ہے کیوں ہوا
جو بات کل نہاں تھی ہوئی آج کیوں عیاں
یہی وقت وقتِ حضرت عیسیٰ ہے دوستو
جو نائب خدا ہیں جو ہیں مہدیٔ زماں
ہوکرغلامِ احمد مرسل کے آئے ہیں
قربان جن کے نام پہ ہوتے ہیں انس و
جاں
سب دشمنادِ دیں کو انھوں نے کیا ذلیل
بخشی ہے ربّ ِعزّ و جل نے وہ عِزّ و
شاں
جو ان سے لڑنے آئے وہ دنیا سے اٹھ
گئے
باقی کوئی بچا بھی تو ہے وہ اب نیم
جاں
ان کو ذلیل کرنے کا جس نے کیا خیال
ایسا ہوا ذلیل کہ جینا ہوا محال
رنج و غم و ملال کو دل سے بھلا دیا
جو داغ دل پہ اپنے لگا تھا مٹا دیا
ہم بھُولے پھر رہے تھے کہیں کے کہیں
مگر
جو راہِ راست تھا ہمیں اس نے بتادیا
اک جام معرفت کا جو ہم کو پلا دیا
جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا
دکھلا کے ہم کو تازہ نشانات و معجزات
چہرہ خدائے عزّو جل کا دکھا دیا
ہم کیوں کریں نہ اس پہ فدا جان و آبرو
روشن کیا ہے دین کا جس نے بُجھا دِیَا
وہ دل جو بغض و کینہ سے تھے کورہو رہے
دیں کا کمال ان کو بھی اس نے دکھا دیا
اس نے ہی آکے ہم کو اٹھایا زمین سے
تھا دشمنوں نے خاک میں ہم کو ملادیا
ڈوئی۔ قصوری۔ دھلوی۔ لیکھو و سومراج
ساروں کو ایک وار میں اس نے گرادیا
ایسے نشاں دکھائے کہ میں کیا کہوں تمہیں
کفار نے بھی اپنے سروں کو جھکا دیا
احسان اس کے ہم پہ ہیں بے حد و بیکراں
جو گن سکے انہیں نہیں ایسی کوئی زباں
برطانیہ جو تم پہ حکومت ہے کررہا
تم جانتے نہیں ہو کہ ہے بھید اس میں
کیا
یہ بھی اُسی کے دم سے ہے نعمت تمہیں
ملی
تا شکر جان و دل سے خدا کا کرو ادا
نازل ہوئے تھے عیسیٰ ؑ مریم جہاں وہاں
اس وقت جاری قیصرِ روما کا حکم تھا
گو تھی یہودیوں کی نہ وہ اپنی سلطنت
پر اپنی سلطنت سے بھی آرام تھا سوا
ویسی ہی سلطنت تمھیں اللہ نے ہے دی
تا اپنی قسمتوں کا نہ تم کو رہے گلہ
پر جیسے اس مسیؑح سے بڑھ کر ہے یہ مسیؑح
یہ سلطنت بھی پہلی سے ہے امن میں سوا
یہ رعب اور شان بھلا اُس میں تھی کہاں
یہ دبدبہ تھا قیصرِ روما کو کب ملا
ہے ایسی شان قیصرِ ہندوستان کی
ہے دشمن اس کی خنجرِ بُرّاں سے کانپتا
اس سلطنت کی تم کو بتاؤں وہ خوبیاں
جن سے کہ اس کی مہروعنایات ہو عیاں
اس کے سبب سے ہند میں امن و امان ہے
نے شور و شر کہیں ہے نہ آہ و فغان
ہے
ہندوستاں میں ایسا کیا ہے انہوں نے
عدل
ہر شورہ پُشت جس سے ہوا نیم جان ہے
وہ جا جہاں پہ ہوتی تھی ہر روز لوٹ
مار
ہر طرح اس جگہ پہ اب امن و امان ہے
خفیہ ہو کوئی بات تو بتلاؤں میں تمہیں
طرزِ حکومت ان کی ہر اک پر عیان ہے
ہندوستاں میں چاروں طرف ریل جاری کی
ان کا ہی کام ہے یہ،یہ ان کی ہی شا
ن ہے
چیزیں ہزاروں ڈاک میں بھیجو تم آج
کل
نقصان اس میں کوئی، نہ کوئی زیان ہے
پھیلایا تار ملک میں آرام کے لیے
یہ سلطنت ہی ہم پہ بہت مہربان ہے
چھوٹوں بڑوں کی چین سے ہوتی ہے یاں
بسر
نے مال کا خطر ہے نہ نقصانِ جان ہے
پیتے ہیں ایک گھاٹ پہ شیر اور گو سپند
اس سلطنت میں یاں تلک امن و امان ہے
پھر بھی کوئی نہ مانے جو احساں تو کیا
کریں
ایسے کو بے خرد کہیں یا بے حیا کہیں
ہندوستاں سے اٹھ گیا تھا علم اور ہنر
یاں آتاتھا نہ عالمِ و فاضل کوئی نظر
پھیلا تھا ہر چہار طرف جہل ملک پر
کوئی نہ تھا جو آکے ھمارا ہو چارہ
گر
اپنے پرائے چھوڑ کر سب ہوگئے الگ
ہم بے کسوں پہ آخر انہوں نے ہی کی
نظر
انگریزوں نے ہی بے کس و بد حال دیکھ
کر
کھولے ہیں علم و فضل کے ہم پر ہزار
دَر
مذہب میں ہر طرح ہمیں آزاد کردیا
چلتا نہیں سروں پہ کوئی جبر کا تَبَر
پوجا کرے نماز پڑھے کوئی کچھ کرے
آزاد کردیا ہے انھوں نے ہر اک بشر
القصہ سلطنت یہ بڑی مہربان ہے
آتی نہیں جہان میں ایسی کوئی نظر
فضل خدا سے ہم کو ملی ہے یہ سلطنت
جو نفع دینے والی ہے اور ہے بھی بے
ضرر
اور اس سے بڑھ کے رحم خدا کا یہ ہم
پہ ہے
عیسیٰ مسیؑح سا ہے دیا ہم کو راہبر
محمود دردِ دل سے یہ ہے اب مِری دعا
قیصر کو بھی ہدایت ِاسلام ہو عطا
اخبار بدر ۔ جلد6۔30مئی 1907ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں