کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ66۔67
25۔ گھٹا کرم کی، ہجومِ بلا سے اُٹھی ہے
گھٹا کرم کی ،ہجوم ِبلا سے اُٹھی ہے
کرامت اک دل ِدرد آشنا سے اُٹھی ہے
جو آہ ، سجدۂِ صبر و رضا سے اُٹھی ہے
زمین بوس تھی ، اُس کی عطا سے اُٹھی
ہے
رسائی دیکھو ! کہ باتیں خدا سے کرتی
ہے
دُعا ۔جو قلب کے تحت الثریٰ سے اُٹھی
ہے
یہ کائنات ازل سے نہ جانے کتنی بار
خلا میں ڈوب چکی ہے خلا سے اُٹھی ہے
سدا کی رسم ہے ، ابلیسیت کی بانگ ِزبوں
انا کی گود میں پل کر اِباء سے اُٹھی
ہے
حیا سے عاری ، سیہ بخت، نیش زن، مردود
یہ واہ واہ کسی کربلا سے اُٹھی ہے
خموشیوں میں کھنکنے لگی کسک دل کی
اک ایسی ہوک دل ِبے نوا سے اُٹھی ہے
مسیح بن کے وہی آسماں سے اتری ہے
جو التجا ، دل ِناکتخدا سے اُٹھی ہے
وہ آنکھ اُٹھی تو مردے جگا گئی لاکھوں
قیامت ہو گی ، کہ جو اس ادا سے اُٹھی
ہے
امر ہوئی ہے وہ تجھ سے محمدؐ عربی
ندائے عشق ، جو قول بلی ٰسے اُٹھی ہے
ہزار خاک سے آدم اٹھے ، مگر بخدا
شبیہ وہ! جو تری خاک پا سے اُٹھی ہے
بنا ہے مہبط انوار قادیاں ۔ دیکھو
وہی صدا ہے ، سنو! جو سدا سے اُٹھی
ہے
کنارے گونج اٹھے ہیں زمیں کے ، جاگ
اٹھو
کہ اک کروڑ صدا، اک صدا سے اُٹھی ہے
جو دل میں بیٹھ چکی تھی ہوائے عیش و
طرب
بڑے جتن سے ، ہزار التجا سے اُٹھی ہے
حیاتِ نو کی تمنا ۔ ہوئی تو ہے بیدار
مگر یہ نیند کی ماتی ، دعا سے اُٹھی
ہے
المحراب سوواں جلسہ سالانہ نمبر لجنہ کراچی۔ جلسہ سالانہ جرمنی ١٩٩١ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں