صفحات

منگل، 15 مارچ، 2016

50۔ مری تدبیر جب مجھ کو مصیبت میں پھنساتی ہے

کلام محمود صفحہ92۔93

50۔ مری تدبیر جب مجھ کو مصیبت میں پھنساتی ہے


مری تدبیر جب مجھ کو مصیبت میں پھنساتی ہے
تو تقدیرِ الہٰی آن کر اس سے چھڑاتی ہے

جدائی دیکھتا ہوں جن تو مجھ کو موت آتی ہے
امیدِ وصل لیکن آکے پھر مجھ کو جِلاتی ہے

نگاہِ مہر سالوں کی خصومت کوبھلاتی ہے
خوشی کی اک گھڑی برسوں کی کُلفت کو مٹاتی ہے

محبت تو وفا ہوکر وفا جی چراتی ہے
ہماری بن کے اے ظالم ہماری خاک اڑاتی ہے

محبت کیا ہے کچھ تم کوخبربھی ہے سنو مجھ سے
یہ ہے وہ آگ جوخود گھر کے مالک کو جلاتی ہے

کہاں یہ خانۂ ویراں کہاں وہ حضرتِ ذی شاں
کشش لیکن ہمارے دل کی انکو کھینچ لاتی ہے

ہوئی ہے بے سبب کیوں عاشقوں کی جان کی دشمن
نسیمِ صبح ان کے منہ سے کیوں آنچل اٹھاتی ہے

مٹائیگا ہمیں کیا،تُواے اپنی جان کا دشمن
ارے ناداں کبھی عشاق کو بھی موت آتی ہے

نہ اپنی ہی خبر رہتی ہے نَے یادِاعزہ ہی
جب اس کی یاد آتی ہے تو پھر سب کو بھلاتی ہے

خدا کو چھوڑنا اے مسلمو!کیا کھیل سمجھے تھے
تمہاری تیرہ بختی دیکھئے کیا رنگ لاتی ہے

محبت کی جھلک چھپتی کہاں ہےلاکھ ہوں پردے
نگاہِ زیر بیں مجھ سے بھلا تو کیا چھپاتی ہے

معاذاللہ مرا دل اور ترکِ عشق کیا ممکن
  میں ہوں وہ باوفا جس سے وفا کو شرم آتی ہے

وہ کیسا سر ہے جوجھکتا ہے آگے ہر کہ ومہ کے
وہ کیسی آنکھ ہے جو ہر جگہ دریا بہاتی ہے

تغافل ہوچکاصاحب خبر لیجے نہیں تو پھر
کوئی دم میں یہ سن لو گے فلاں کی نعش جاتی ہے

طریقِ عشق میں اے دل سیادت کیا غلامی کیا
محبت خادم و  آقا کو اک حلقہ میں لاتی ہے

بلائے ناگہاں بیٹھے ہیں ہم آغوشِ دلبر میں
خبر بھی ہے تجھے کچھ تُوکنہیں آنکھیں دکھاتی ہے

تری رہ میں بچھائےبیٹھے ہیں دل مدتوں سے ہم
سواری دیکھئے اب دلربا کب تیری آتی ہے

ہمارا امتحاں لے تمھیں کیا فائدہ ہوگا؟
ہماری جان تو بے امتحاں ہی نکلی جاتی ہے

گِھراہوں حلقۂ احباب میں گو میں مگر تجھ بن
مرے یارِ ازل تنہائی پھر بھی کاٹے کھاتی ہے

ہماری خاک تک بھی اڑچکی ہے اسکے رستہ میں
ہلاکت تُوبھلا کس بات سے ہم کو ڈراتی ہے

غمِ دل لوگ کہتے ہیں نہایت تلخ ہوتی ہے
مگر میں کیا کروں اس کو غذا یہ مجھ کو بھاتی ہے

مری جاں تیرے جامِ وصل کی خواہش میں اے پیارے
مثالِ ماہئ بے آب ہر دم تلملاتی ہے

مرے دل میں تو آتا ہے کہ سب احوال کہہ ڈالوں
نہ شکوہ جان لیں،اس سے طبیعت ہچکچاتی ہے

کبھی جو روتے روتے یاد میں مَیں اس کی سوجاؤں
شبیہِ یار آکر مجھ کو سینے سے لگاتی ہے

انانیت پرے ہٹ جا مجھے مت منہ دکھا اپنا
میں اپنے حال سے واقف ہوں تو کس کو بناتی ہے

کبھی کا ہوچکا ہوتاشکارِیاس ونومیدی
مگر یہ بات اے محمود میرا دل بڑھاتی ہے

جوہوں خدامِ دیں ان کوخداسے نصرت آتی ہے
"جب آتی ہے تو پھر عالَم کو اک عالَم دکھاتی ہے"
 
اخبار الفضل جلد 7 ۔16اگست 1920ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں