کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ151
64۔
یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا
یہ دو آنکھیں ہیں شعلہ زا۔ یا جلتے
ہیں پروانے دو
یہ اشکِ ندامت پھوٹ پڑے۔ یا ٹوٹ گئے
پیمانے دو
پہلے تو مری موجودگی میں تم اکتائے
سے رہتے تھے
اب میرے بعد تمہارا دل گھبرائے گا ۔
گھبرانے دو
دکھ اتنے دیئے میں سہہ نہ سکا یوں زیست
کا رشتہ ٹوٹ گیا
اب اپنے کئے پر ظالم دل پچھتاتا ہے
، پچھتانے دو
خوش ہو کے کرو رخصت دیکھو ۔ تم ناحق
اپنی پلکوں پر
جو اشک سجائے بیٹھے ہو ۔ ان اشکوں کو
ڈھل جانے دو
مر کر بھی مرا ، یہ بھیگی آنکھیں ،
چین اڑا دیں گی۔ تو کیا
یہ بجھے چراغ سجاؤ گے مرے مرقد کے سرہانے
دو
نیند آئی ہے تھک ہار چکا ہوں چھوڑو
بھی پچھلی باتیں
میں رات بہت جاگا ہوں۔ اب تو صبح تلک
سستانے دو
١٩٤٤ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں