صفحات

بدھ، 30 مارچ، 2016

34۔ اے بوسنیا بوسنیا!

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ89۔92

34۔ اے بوسنیا بوسنیا!


اے بوسنیا بوسنیا!
بوسنیآ ، زندہ باد!

١
تو خوں میں نہائے ہوئے ٹیلوں کا وطن ہے
گل رنگ شفق ۔ قرمزی جھیلوں کا وطن ہے

خوں بار بلکتے ہوئے جھرنوں کی زمیں ہے
نوخیز جواں سال قتیلوں کا وطن ہے

اک دن تیرے مقتل میں بہے گا دم جلاد
اے بوسنیا بوسنیا!
بوسنیآ ، زندہ باد!

٢
اے وائے وہ سر ، جن کی اُتاری گئی چادر
پا بَستَہ پدر اور پِسَر ۔جن کے برابر
ہوتی رہی رسوا کہیں دُختر کہیں مادر
دیکھے ہیں تری آنکھ نے وہ ظلم کہ جن پر
پتھر بھی زبانیں ہوں تو کرنے لگیں فریاد
اے بوسنیا بوسنیا!
بوسنیآ ، زندہ باد!

٣
قبروں میں پڑے عرش نشینوں کی قَسم ہے
رولے ہوئے مٹی میں نگینوں کی قَسم ہے
بہنوں کے اُمنگوں کے دفینوں کی قَسم ہے
ماؤں کے سلگتے ہوئے سینوں کی قَسم ہے
ہو جائیں گے آنگن ترے اُجڑے ہوئے آباد
اے بوسنیا بوسنیا!
بوسنیآ ، زندہ باد!

٤
چُھٹ جائیں گے اک روز مظالم کے اندھیرے
لہرائیں گے ہر آنکھ میں گلرنگ سویرے
صبحوں کے اجالوں سے لکھیں گے ترے نغمے
سر پر ترے باندھیں گے فتوحات کے سہرے
اللہ کی رحمت سے سب ہو جائیں گے دلشاد
اے بوسنیا بوسنیا!
بوسنیآ ، زندہ باد!

٥
سینوں پہ رقم ہیں تری عظمت کے فسانے
گاتی ہیں زبانیں تری سطوت کے ترانے
اُترے گا خدا جب تری تقدیر بنانے
مٹ جائیں گے ، نکلے جو ترا نام مٹانے
جس جس نے اُجاڑا تجھے ہو جائے گا برباد
اے بوسنیا بوسنیا!
بوسنیآ ، زندہ باد!

٦
تو اپنے حسیں خوابوں کی تعبیر بھی دیکھے
اک تازہ نئی صبح کی تنویر بھی دیکھے
جو سینۂ شمشیر کو بھی چیر کے رکھ دے
دنیا ترے ہاتھوں میں وہ شمشیر بھی دیکھے
پیدا ہوں نئے حامی دیں ، دشمن الحاد
اے بوسنیا بوسنیا!
بوسنیآ ، زندہ باد!

جلسہ سالانہ جرمنی ۔ ٢٨اگست ١٩٩٤ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں