صفحات

جمعرات، 17 مارچ، 2016

37۔ وہ قیدِ نفس ِدنی سے مجھے چھڑائیں گے کب

کلام محمود صفحہ64

37۔ وہ قیدِ نفس ِدنی سے مجھے چھڑائیں گے کب


وہ قیدِ نفس ِدنی سے مجھے چھڑائیں گے کب
رہائی پنجۂ غم سے مجھے دلائیں گے کب

یہ صدماہائے جدائی اٹھائیں گے کب
دل اور جان مرے اُن کی تاب لائینگے کب

وہ میرے چاکِ جگر کا کریں گے کب درماں
جو دل پہ داغ لگے ہیں انہیں مٹائینگے کب

یونہی تڑپتے تڑپتے نہ دم نکل جائے
کوئی یہ پوچھ تو آؤ مجھے بلائیں گے کب

خوشی انہی کو ہے زیبا جو صاحبِ دل ہیں
جو دل ہیں دب چکے پھر وہ ہنسیں ہنسائینگے کب

وفا طریق ہے ان کو وہ ہیں بڑے محسن
لگا کے منہ نظروں سے مجھے گرائینگے کب

جو تم نے ان کو ملانا ہو دل وسیع کرو
بڑے وسیع ہیں وہ اس جگہ سمائینگے کب

نہیں یہ ہوش کہ خود ان کے گھرمیں رہتا ہوں
یہ رٹ لگی ہے کہ وہ میرے گھر پہ آئینگے کب

یہ میں نے مانا کہ ہے ان کی ذات بے پایاں
مگر وہ چہرۂ زیبا مجھے دکھائیں گے کب

مُمِیت بن چکے مُحیِیٖ بنیں گے کب میرے
وہ مجھ کو مار تو بیٹھے ہیں اب جلائینگے کب

نگاہ چہرۂ جاناں پہ جا پڑی جن کی
پھر اور لوگوں کے انداز ان کو بھائینگے کب

جو خود ہوں نور جنھیں نور سے محبت ہو
غریقِ بحرِ ضلالت سے دل ملائیں گے کب

الٰہی آپ کی درگہ سے گر پھرا خالی
تو پھر جو دشمنِ جاں ہیں وہ منہ لگائینگے کب

سنا ہے خواب میں ممکن ہے رویتِ جاناں
میں منتظر ہوں کہ وہ اب مجھے سلائینگے کب

اخبار بدر جلد 9 ۔9جون 1910ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں