صفحات

پیر، 14 مارچ، 2016

55۔ ساغرِ حسن تو پُر ہے کوئی مَے خوار بھی ہو

کلام محمود صفحہ102

55۔ ساغرِ حسن تو پُر ہے کوئی مَے خوار بھی ہو


ساغرِ حسن تو پُر ہے کوئی مَے خوار بھی ہو
ہے وہ بے پردہ کوئی طالبِ دیدار بھی ہو

وصل کا لطف تبھی ہے کہ رہیں ہوش بجا
دل بھی قبضہ میں رہے پہلو میں دلدار بھی ہو

رسمِ مخفی بھی رہے اُلفتِ ظاہر بھی رہے
ایک ہی وقت میں اخفا بھی ہو اظہار بھی ہو

عشق کی راہ میں دیکھے گا وہی روئے فلاح
جو کہ دیوانہ بھی ہو عاقل و ہشیار بھی ہو

اس کا در چھوڑ کے کیوں جاؤں کہاں جاؤں میں
اور دنیا میں کوئی اس کی سی سرکار بھی ہو

ہمسری مجھ سے تجھے کس طرح حاصل ہو عدو
حال پر تیرے او ناداں! نظرِ یار بھی ہو

بات کیسے ہو مُؤثر جو نہ ہو دل میں سوز
روشنی کیسے ہو دل مہبطِ انوار بھی ہو

یونہی بے فائدہ سر مارتے ہیں وید و طبیب
اُن کے ہاتھوں سے جو اچھا ہو آزار بھی ہو

درد کا میرے تو اے جان فقط تم ہوعلاج
چارۂ کار بھی ہو محرمِ اَسرار بھی ہو

دل میں اک درد ہے پر کس سے کہوں میں جا کر
کوئی دنیا میں مرا مونس و غم خوار بھی ہو

سالکِ راہ یہی ایک ہے منہاجِ وصول
عشق دلدار بھی ہو صحبتِ ابرار بھی ہو

اخبار الفضل جلد 8 ۔6جنوری 1921ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں