کلام
محمود صفحہ122۔123
73۔ کون سا دل ہے جو شرمندۂ احسان نہ ہو
کون سا دل ہے جو شرمندۂ احسان نہ ہو
کونسی روح ہے جو خائف وترسان نہ ہو
میرے ہاتھوں سے جدا یا رکادامان نہ
ہو
میری آنکھوں سے وہ اوجھل کبھی اک آ
ن نہ ہو
مضغہ ء گوشت ہےوہ دل میں جو ایمان نہ
ہو
خاک سی خاک ہے وہ جسم میں گرجا ن نہ
ہو
اپنی حالت پہ یونہی خرم وشادان نہ ہو
یہ سکوں پیش رَوِ آمدِ طوفا ن نہ ہو
مبتلائے غم و آلام پہ خندان نہ ہو
یہ کہیں تیری تباہی کا ہی ساما ن نہ
ہو
اپنے اعمال پہ غرّہ ارے نادان نہ ہو
توبھلا چیز ہے کیا اُس کا جو احسا ن
نہ ہو
نہ ٹلیں گے نہ ٹلیں گے نہ ٹلیں گے ہم
بھی
جب تلک سر بدع و کفر کا میدا ن نہ ہو
رنگ بھی روپ بھی ہوحسن بھی ہولیکن پھر
فائدہ کیا ہے اگر سیرتِ انسا ن نہ ہو
نہ سہی جودپہ وہ کام تو کرتُو جس میں
غیر کا نفع ہو تیرا کوئی نقصا ن نہ
ہو
عشق کا دعوٰی ہے تو عشق کے آثار دکھا
دعوٰی باطل ہے وہ جس دعوٰ ی پہ برہان
نہ ہو
مرحبا! وحشتِ دل تیرے سبب سے یہ سنا
میں ترے پاس ہوں سرگشتہ وحیران نہ ہو
بادہ نوشی میں کوئی لطف نہیں ہے جبتک
صحبت ِ یار نہ ہو مجلسِ رندا ن نہ ہو
بلبلِ زار تو مرجائے تڑپ کر فورًا
گرگلِ تازہ نہ ہو بوئے گلستا ن نہ ہو
تیری خدمت یہ ہےعرض بصد عجزونیاز
قبضۂ غیر میں اے جاں مری جا ن نہ ہو
تُو ہے مقبول ِ الٰہی بھی تو یہ بات
نہ بھول
سامنے تیرے کوئی موسٰئ ؑعمرا ن نہ ہو
ابنِ آدم ہے نہ کچھ اور تجھے خیال رہے
حدِّ نسیان سے بڑھ کر کہیں عصیا ن نہ
ہو
تجھ میں ہمت ہے تو کچھ کر کے دکھا دنیا
کو
اپنے اجداد کے اعمال پہ نازا ن نہ ہو
اپنے ہاتھوں سے ہی خود اپنی عمارت نہ
گرا
مُخربِ دین نہ بن دشمنِ ایما ن نہ ہو
جودواحسانِ شہنشہ پہ نظر رکھ اپنی
جورِ اغیار پہ افسردہ ونالا ن نہ ہو
اپنے اوقات کو اے نفسِ حریص و طامع
شکرِمنت میں لگا،طالبِ احسا ن نہ ہو
آگ ہوگی تو دھواں اس سے اٹھے گا محمود
غیر ممکن ہے ہو عشق پہ اعلا ن نہ ہو
اخبار الفضل جلد 12 ۔ 16جون 1925ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں