صفحات

جمعہ، 18 مارچ، 2016

35۔ دل پھٹا جاتا ہے مثلِ ماہیٔ بے آب کیوں

کلام محمود صفحہ62

35۔ دل پھٹا جاتا ہے مثلِ ماہیٔ بے آب کیوں


دل پھٹا جاتا ہے مثلِ ماہیٔ بے آب کیوں
ہورہا ہوں کس کے پیچھے اس قدر بیتاب کیوں

خالقِ اسباب ہی جب ہوں کسی پر خشمگیں
پھر بھلا اس آدمی کا ساتھ دیں اسباب کیوں

مجھ کو یہ سمجھیں کہ ہوں الفت میں مرفوع القلم
میرے پیچھے پڑ رہے ہیں سب مرے احباب کیوں

جب کلیدِ معرفت ہاتھوں میں میرے آگئی
تیرے انعاموں کا مجھ پر بند ہے پھر باب کیوں

اس میں ہوتی ہے مجھے دیدِ رخ جاناں نصیب
میری بیداری سے بڑھ کر ہو نہ میرا خواب کیوں

امت احمدؐ نے چھوڑی ہے صراطِ مستقیم
کیوں نہ گھبراؤں نہ کھاؤں دل میں پیچ و تاب کیوں

جبکہ وہ یارِ یگانہ ہر گھڑی مجھ کو بلائے
پھر بتاؤ تو کہ آئے میرے دل کو تاب کیوں

جبکہ رونا ہے تو پھر دل کھول کر روئیں گے ہم
نہر چل سکتی ہو تو بنوائیں ہم تالاب کیوں

چھوڑ دو جانے بھی دو سنتا ہوں یہ بھی ہے علاج
ڈالتے ہو میرے زخم دل پہ تم تیزاب کیوں

گفتگوئے عاشقاں سن سن کے آخر یہ کہا
بات تو چھوٹی سے تھی اتنا اِطناب کیوں

اخبار بدرجلد 8 ۔4نومبر 1909ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں