صفحات

پیر، 21 مارچ، 2016

18۔ محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے

کلام محمود صفحہ35۔37

18۔ محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے


محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے
کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے

مرا دل اس نے روشن کردیا ہے
اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے

خبر لے اے مسیؑحا دردِ دل کی
ترے بیماری کا دم گھٹ رہا ہے

دل آفت زدہ کا دیکھ کر حال
مرا زخم جگر بھی ہنس رہا ہے

کس کو بھی نہیں مذہب کی پروا
ہر اک دنیاکا ہی شیدا ہوا ہے

بھنور میں پھنس رہی ہے کشتیٔ دیں
تلاطم بحرِ ہستی میں بپا ہے

سروں پر چھا رہا ہے ابرِ ظلمت
اُسی سے جنگ ہے جو ناخدا ہے

خدایا اک نظر اس تفتہ دل پر
کہ یہ بھی تیرے در کا اک گدا ہے

غمِ اسلام میں جاں بلب ہوں
کلیجہ میرا منہ کو آرہا ہے

ہمارے حال پر ہنستی ہے گو قوم
ہمیں پر اس پہ رونا آرہا ہے

مسیؑحا کو نہیں خوف و خطر کچھ
حمایت تلا اس کی خدا ہے

ہوئے ہیں لوگ دشمن امرِ حق کے
اسی کا نام کیا صدق و صفا ہے

حیاتِ جاوداں ملتی ہے اس سے
کلامِ پاک ہی آب بقا ہے

دم عیسیٰ سے مردے جی اٹھے ہیں
جو اندھے تھے انہیں اب سوجھتا ہے

ذرا آنکھیں تو کھولو سونے والو!
تمھارے سر پہ سورج آگیا ہے

زمین و آسماں ہیں اس پہ شاھد
جہاں میں ہر طرف پھیلی وبا ہے

مرا ہر ذرہ ہو قربانِ احمدؐ
مرے دل کا یہی اک مدعا ہے

اسی کے عشق میں نکلے مری جاں
کہ یادِ یار میں بھی اک مزا ہے

مجھے اس بات پر ہے فخر محمود
مرا معشوق محبوبِ خدا ہے

سنو اے دشمنانِ دینِ احمدؐ
نتیجہ بد زبانی کا برا ہے

کساں کو اک نظر دیکھو خدا را
جو بوتا ہے اسی کو کاٹتا ہے

نہیں لگتے کبھی کیکر کو انگور
نہ حنظل میں کبھی خرما لگا ہے

لگیں گو سینکڑوں تلوار کے زخم
زباں کا ایک زخم اُن سے برا ہے

شفا پاجاتے ہیں وہ رفتہ رفتہ
کہ آخر ہر مرض کی اک دوا ہے

خزاں آتی نہیں زخمِ زباں پر
یہ رہتا آخری دم تک ہرا ہے

ہمارے انبیاء کو گالیاں دو
پھر اس کے ساتھ دعویٰ صلح کا ہے

گریبانوں میں اپنے منہ تو ڈالو
ذرا سو چو اگر کچھ بھی حیا ہے

ہماری صلح تم سے ہوگی کیونکر
تمھارے دل میں جب یہ کچھ بھرا ہے

محمدؐ کو برا کہتے ہو تم لوگ
ہماری جان و دل جس پر فدا ہے

محمدؐ جو ہمارا پیشوا ہے
محمد ؐ جو کہ محبوبِ خدا ہے

ہو اس کے نام پر قربان سب کچھ
کہ وہ شاہنشہ ہر دوسرا ہے

اسی سی میرا دل پاتا ہے تسکیں
وہی آرام میری روح کا ہے

خدا کو اس سےمل کر ہم نے پایا
وہی اک راہِ دیں کا رہنما ہے

پس اس کی شان میں جو کچھ ہو کہتے
ہمارے دل جگر کو چھیدتا ہے

مزہ دوبار پہلے چکھ چکے ہو
مگر پھر بھی وہی طرزِ ادا ہے

خدا کا قہر اب تم پر پڑے گا
کہ ہونا تھا جو کچھ اب ہوچکا ہے

چکھائے گی تمہیں غیرت خدا کی
جو کچھ اس بدزبانی کا مزا ہے

ابھی طاعون نے چھوڑا نہیں ملک
نئی اور آنے والی اک وبا ہے

شرارت اور بدی سے باز آؤ
دلوں میں کچھ بھی گر خوفِ خدا ہے

بزرگوں کو ادب سے یاد کرنا
یہی اکسیر ہے اور کیمیا ہے

اخبار بدر جلد 7۔ 6فروری 1908ء


1 تبصرہ: