کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ113۔115
47۔ آ میری موجوں سے لپٹ جا
حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ؓ کے صاحبزادے ناصر ظفر کو خدا تعالیٰ نے بڑی سریلی
اور دل میں اتر جانے والی آواز سے نوازا ہے۔ کالج کے زمانہ میں وہ ہمیں ایک ہندی گانا
سنایا کرتے تھے جس میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر تھا اور یہ مثال بھی دی گئی تھی کہ
پھول سے رنگت باغی ہو کر تتلی بن اڑ جائے
باس کلی کا سینہ چیرے اور دنیا پر چھائے
اسی طرح بادلوں کے پہاڑوں کی طرف اڑ جانے کا ذکر تھا۔ اس پر میں نے صرف سمندر سے
بادلوں کے اٹھنے ' پہاڑوں پر برسنے اور پھر واپس سمندر میں آملنے کا ذکر کیا ہے کہ
کس طرح خدا تعالیٰ کھاری پانی سے شفاف بخارات اٹھاتا ہے اور کل عالم پر محیط ایک نظام
کے تابع انہیں اونچے پہاڑوں پر برساتا اور پھر واپس سمندر میں لے آتا ہے۔ اس نظم میں
ملی جلی ہندی اور اردو زبان میں اظہار مطلب کی کوشش کی گئی ہے۔
روٹھ
کے پانی ساگر سے جب بادل بن اڑ جائے
ساگر
پاگل سا ہو کر ' سر ساحل سے ٹکرائے
روٹھا
روٹھا ' غم کا مارا ' وہ بادل آوارہ
دیس
سے ہو کے بدیس کسی انجانے دیس کو جائے
لاکھ
ہِردے پر جبر کرے لیکن جب صبر نہ آئے
بے
چارہ دکھیا نینوں سے چھم چھم نِیر بہائے
پھر
بھی چین نہ آئے' گھر کی یاد بہت ترسائے
جیسے
زخمی مچھلی تڑپے ' تڑپے اور بل کھائے
یادوں
کا طوفان اٹھ کر مَن میں کہرام مچائے
بِرہا
کی اگنی بجلیاں بن کر آگ کا مینہ برسائے
دکھ
کا ایک جوالا مکھی سینے میں پھٹ جائے
پھوٹ
کے بادل برسے ' گرجے ' کڑکے ' شور مچائے
پچھتائے
اور اپنے من پر آپ ہی دوش لگائے
بلک
بلک کر اک سنیاسن کا یہ دوہا گائے
جاؤ
سدھارو تم بھی سدھارو ' روکے تم کو کوئے
اس
سنسار کی ریت یہی ہے جو پائے سو کھوئے
راہ
میں پربت پاؤں پڑے بہلائے اور پھسلائے
یار
کسی کا اپنانے کو حیلے لاکھ بنائے
پربت
کا کٹناپا اس کے جی پر آفت ڈھائے
اولوں
کا پتھراؤ کرے اس پر اور شرم دلائے
نالے
بَین کریں اور ندیاں منہ سے جھاگ اُڑائے
اپنا
سر پتھروں پر پٹکیں سینے کو بپھرائے
آخر
سما کھلے تو دیکھے چَھٹ بھی گئے ،اندھیارے
مَن
مندر میں سورج بیٹھا آس کا دیپ جلائے
سوندھی
سوندھی باس وطن کی مٹی میں سے اٹھے
تب
سب نوحے بھول کے وہ بس راگ ملن کے گائے
پیتم
یاد میں ڈوبا ڈوبا پریم نگر کو جائے
ایک
ہی دھن میں گم ہو ' مَن میں ایک ہی یار بسائے
اس
کے پاؤں دھو کے پئیں ساگر کی موجیں جب وہ
جھینپا
جھینپا اس میں اترے شرمائے شرمائے
آ۔
میری موجوں سے لپٹ جا ساگر تان اڑائے
یہ
بھی تو سنسار کی ریت ہے جو کھوئے سو پائے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں