کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ149۔150
63۔
میاں چھیمی کا حلوہ
یہ نظم بچپن میں ضلع کانگڑہ کے ایک پرفضاپہاڑی مقام دھرم سالہ میں کہی تھی جہاں
ہم آٹھ بھائی اپنے اباجانؓ کے ساتھ گئے ہوئے تھے۔ وہاں بھائیوں نے آپس میں پیسے ڈال
کر حلوہ بنانے کا پروگرام بنایا تھا۔ جب حلوہ پک چکا تو میاں وسیم جنہیں ہم ان دنوں
''چھیمی''کہا کرتے تھے ، حلوہ اٹھائے ہوئے تیزی سے ہماری طرف آ رہے تھے کہ رستے میں
ٹکر لگی اور ان کے ہاتھ سے دیگچہ چھوٹ کر سارا حلوہ مٹی میں مل گیا۔ ہم نے انہیں چھیڑنے
کی خاطر یہ قصہ بنایا اور میں نے اسے نظمایا۔ لیکن یہ نظم محض بچپن کی اک چھیڑ چھاڑ
تھی ورنہ میاں وسیم کی نیت ہرگز حلوہ اکیلے کھانے کی نہیں تھی۔ قیصؔ میری بڑی بہن ،
بیگم مرزا مظفر احمد صاحب کا ایک ملازم تھا جو اُن دنوں اُن دونوں کے ساتھ ہی وہاں
ٹھہرا ہوا تھا اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے بے تکلف اس کا گھر میں آنا جانا تھا۔ امی سے
مراد میری امی مرحومہؓ ہیں جن سے میاں وسیم بلاوجہ بچپن میں بہت ڈرا کرتے تھے۔ یہ نظم
میاں وسیم احمدصاحب کی اجازت سے شامل اشاعت کی جا رہی ہے۔
اک پیسہ پیسہ جوڑ کر بھائیوں نے شوق
سے
سوچا تھا یہ کہ سوجی کا حلوہ بنائیں
گے
پھر بیٹھ کر مزے سے کسی بند کمرے میں
اک دوسرے کو حلوے پہ حلوہ کھلائیں گے
چھیمی نے سوچا کیوں نہ اکیلا ہی کھاؤں
میں
باورچی خانہ چوری چھپے کیوں نہ جاؤں
میں
ہوشیار بننے والوں کو بدھو بناؤں میں
جب مجھ کو کھانے دوڑیں ، کہیں بھاگ
جاؤں میں
یہ سوچ کر چلا گیا باورچی خانے میں
باورچی تھا مگن وہاں حلوہ پکانے میں
اس سے کہا میں تھک گیا ہوں آنے جانے
میں
بھائی ہیں میرے منتظر اندر زنانے میں
پھر دیگچی اٹھا کے وہ تیزی سے چل پڑا
حلوہ کی طرح منہ سے بھی پانی ابل پڑا
کیا علم تھا کہ راہ میں دیکھے گا قیص
کو
دیکھا تو ڈر سے سینہ میں دل ہی اچھل
پڑا
جب قیص نے کہا تمہیں امی بلاتی ہیں
امی کا نام سنتے ہی بس وہ ٹھٹھر گیا
قسمت کو دیکھئے کہ کہاں ٹوٹی جا کمند
حلوہ قریب دہن ہی آیا تھا ، گر گیا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں