صفحات

ہفتہ، 26 مارچ، 2016

58۔ عشق نارسا

کلام طاہر ایڈیشن 2004صفحہ142۔143

58۔ عشق نارسا


کبھی اپنا بھی اک شناسا تھا
کوئی میرا بھی آسرا سا تھا

کبھی میں بھی کسی کا تھا مطلوب
یا مجھے بس یونہی لگا سا تھا

وہ سراپا جمال سر تا پا
حسن ِصنعت کا معجزہ سا تھا

نرگسی چشم نیم باز اس کی
چمنِ دل کھلا کھلا سا تھا

خم ِلب ۔ برگ گل کی انگڑائی
دہن غنچہ ،۔نیم وا سا تھا

حسن کی چاندنی سے تابندہ
پھول چہرہ کِھلا کِھلا سا تھا

خوش تکلم سا خوش ادا سا تھا
بے تکلف سا بے ریا سا تھا

یوں لگا جب ملا وہ پہلی بار
جیسے صدیوں سے آشنا سا تھا

بھر دیا اس نے وہ جو برسوں سے
میرے سینے میں اک خلا سا تھا

اک کرشمہ فسوں کا پراسرار
حیرتوں کا مجسمہ سا تھا

خامشی میں سرود ِبے آواز
گفتگو میں غزل سرا سا تھا

دھوپ میں سائے دار اس کا پیار
اور اندھیروں میں اک دیا سا تھا

آشنا ہو کے اجنبی تھا وہ شخص
ساتھ رہ کر جدا جدا سا تھا

دل میں گھر کر گیا وہ دل کا چور
دل نشیں کتنا دلربا سا تھا

بن سکا نہ مرا کبھی لیکن
وہ ہمیشہ مرا مرا سا تھا

اس کے دائم فراق میں شب و روز
وصل کا سرمدی مزا سا تھا

جب بھی وہ آیا ساتھ نغمہ سرا
آرزوؤں کا طائفہ سا تھا

جب گیا حسرتوں کا اس کے ساتھ
ایک غمناک جمگھٹا سا تھا

مجھے کنگال کر گیا وہ شخص
میرا تو بس وہی اَثاثہ تھا

میں نہیں جانتا وہ تھا کیا چیز
تھی حقیقت کہ واہمہ سا تھا

تھا وہ تعبیر میرے خوابوں کی
یا ہیولیٰ سا خواب کا سا تھا

پیار میں جس کے عمر بیت گئی
کیا فقط ایک دم دلاسہ تھا؟

دیدئہ ہوش جب کُھلا ، دیکھا
ہر طرف پھر وہی خلا سا تھا

وہی میں تھا وہی طلب دل کی
وہی اک عشقِ نارسا سا تھا

پیاس بجھ نہ سکی کسی مے سے
جانے دل کس بلا کا پیاسا تھا


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں