صفحات

منگل، 22 مارچ، 2016

9۔ گناہ گاروں کے دردِ دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے

کلام محمود صفحہ17۔20

گناہ گاروں کے دردِ دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے


گناہ گاروں کے دردِ دل کی بس اک قرآن ہی دوا ہے
یہی ہے خضرِ رہِ طریقت یہی ہے ساغر جو حق نما ہے

ہر اک مخالف کےزور و طاقت کو توڑنے کا یہی ہے حربہ
یہی ہے تلوار جس سے ہر ایک دیں کا بدخواہ کانپتا ہے

تمام دنیا میں تھا اندھیرا کیا تھا ظلمت نے یاں بسیرا
ہوا ہے جس سے جہان روشن وہ معرفت کا یہی دیا ہے

نگاہ جن کی زمین پر تھی نہ آسماں کی جنہیں خبر تھی
خدا سے اُن کو بھی جا ملایا دکھائی ایسی رہِ ھدیٰ ہے

بھٹکتے پھرتےہیں راہ سے جو، انہیں یہ ہے یار سے ملاتا
جواں کے واسطے یہ خضرِ رہ ہے، تو پیر کے واسطے عصا ہے

مصیبتوں سے نکالتا ہے بلاؤں کو سر سے ٹالتا ہے
گلے کا تعویذ اسے بناؤ، ہمیں یہی حکمِ مصطفیٰ ہے

یہ ایک دریائے معرفت ہے لگائے اس میں جو ایک غوطہ
تو اس کی نظروں میں ساری دنیا فریب ہے جھوٹ ہے دغا ہے

مگر مسلمانوں پر ہے حیرت جنھوں نے پائی ہے ایسی نعمت
دلوں پہ چھائی ہے پھر بھی غفلت نہ یادِ عقبیٰ ہے نے خدا ہے

نہیں ہے کچھ دیں سے کام ان کا یونہی مسلماں ہے نام ان کا
ہے سخت گندہ کلام ان کا ہر ایک کام ان کا فتنہ زا ہے

زمیں سے جھگڑا فلک سے قضیہ یہاں ہے شور اور وہاں شرابا
نہیں ہے اک دم بھی چین آتا خبر نہیں ان کو کیا ہوا ہے

یہ چلتے ہیں یوں اکڑ اکڑ کر کہ گویا ان کے ہیں بحر اور بر
پڑے ہیں ایسے سمجھ پہ پتھر۔ کہ شرم ہے کچھ نہ کچھ حیا ہے

لڑیں گے آپس میں بھائی باہم نہ ہوگا کوئی کسی کا ہمدم
مرا پیارا رسولِ اکرمؐ ۔یہ بات پہلے سے کہہ گیا ہے

نہ دل میں خوفِ خدا رہے گا نہ دین کا کوئی نام لے گا
فلک پہ ایمان جاچڑھے گا یہی ازل سے لکّھا ہوا ہے

مگر خدائے رحیم و رحماں جو اپنے بندوں کا ہے نگہباں
جو ہے شہنشاہِ جنّ و انساں جو ذرّہ ذرّہ کو دیکھتا ہے

کرے گا قدرت سے اپنی پیدا وہ شخص جس کا کیا ہے وعدہ
مسیح ِؑدوراں مثیلِ عیسیٰ ؑ جو میری امت کا رہنما ہے

سو ساری باتیں ہوئی ہیں پوری نہیں کوئی بھی رہی ادھوری
دلوں میں اب بھی رہے جو دُوری تو اس میں اپنا قصور کیا ہے

پڑا عجب شور جابجا ہے جو ہے وہ دنیا پہ ہی فدا ہے
نہ دل میں خوفِ خدا رہا ہے نہ آنکھ میں ہی رہی حیا ہے

مسیؑحِ دوراں مثیل ِعیسیٰ ؑ بجا ہے دنیا میں جس کا ڈنکا
خدا سے ہے پاکے حکم آیا ۔ملا اسے منصبِ ھدیٰ ہے

ہے چاند سورج نے دی گواہی ، پڑی ہے طاعون کی تباہی
بچائے ایسے سے پھر خدا ہی ، جو اب بھی انکار کررہا ہے

وہ مطلع آبدار لکھوں، کہ جس سے حساد کا ہودل خوں
حروف کی جا گہر پروؤں، کہ مجھ کو کرنا یہی روا ہے

مسیؑح دنیا کا رہنما ہے ، غلامِ احمدؐ ہے مصطفیٰ  ؐ ہے
برُوزِ اقطاب و انبیاء ہے، خدا نہیں ہے خدا نما ہے

جہاں سے ایمان اٹھ گیا تھا فریب و مکاری کا تھا چرچا
فساد نے تھا جمایا ڈیرا ، وہ نقشہ اس نے الٹ دیا ہے

اسی کے دم سے مرا تھا آتھم ،اسی نے لیکھو کا سر کیا خم
اسی کا د نیا میں آج پرچم ہما کے بازو پہ اُڑ رہا ہے

اسی کی شمشیرِ خونچکاں نے کیا قصوری کو ٹکڑے ٹکڑے
یہ زلزلہ بار بار آکے ،اسی کی تصدیق کررہا ہے

جمایا طاعوں نے ایسا ڈیرا، ستوں اس کا نہ پھر اکھیڑا
دیا ہے خلقت کو وہ تریڑا ،کہ اپنی جاں سے ہوئی خفا ہے

مقابلہ میں جو تیرے آیا ،نہ خالی بچ کر کبھی بھی لوٹا
یہ دبدبہ دیکھ کر مسیحاؑ ، جو کوئی حاسد ہے جل رہا ہے

خدا نے لاکھوں نشاں دکھائے، نہ پھر بھی ایمان لوگ لائے
عذاب کے منتظر ہیں ہائے ، نہیں جو بدبختی یہ تو کیا ہے

صبا ترا  گر وہاں گذرہو تو اتنا پیغام میرا دیجو
اگرچہ تکلیف ہوگی تجھ کو پہ کام یہ بھی ثواب کا ہے

کہ اے مثیلِ مسیحؑ و عیسیٰؑ ! ہوں سخت محتاج میں دعا کا
خدا تری ہے قبول کرتا کہ تُو اس امت کا ناخدا ہے

خدا سے میری یہ کر شفاعت کہ علم و نور و ھدیٰ کی دولت
مجھے بھی اب وہ کرے عنایت یہی مری اُس سے التجا ہے

رہِ خدا میں ہی جاں فدا ہو ، دل عشقِ احمدؐ میں مبتلا ہو
اسی پہ ہی میرا خاتمہ ہو، یہی مرے دل کا مدعا ہے

نہیں ہے محمود فکر اس کا ، کہ یہ اثر کس قدر کرے گا
سخن کہ جو دل سے ہے نکلتا ، وہ دل میں ہی جا کے بیٹھتا ہے

اخبار بدر ۔ جلد 6۔21 فروری1907ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں