صفحات

پیر، 21 مارچ، 2016

16۔ نشاں ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں

کلام محمود صفحہ31۔32

16۔ نشاں ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں


نشاں ساتھ ہیں اتنے کہ کچھ شمار نہیں
ہمارے دین کا قصوں پہ ہی مدار نہیں

وہ دل نہیں جو جدائی میں بے قرار نہیں
نہیں وہ آنکھ جو فرقت میں اشکبار نہیں

وہ ہم کہ فکر میں دیں کے ہمیں قرار نہیں
وہ تم کہ دینِ محمدؐ سے کچھ بھی پیار نہیں

وہ لوگ درگہ ِعالی میں جن کو بار نہیں
انہیں فریب و دغا، مکر سے بھی عار نہیں

ہے خوف مجھ کو بہت اس کی طبع ِنازک سے
نہیں ہے یہ کہ مجھے آرزوئے یار نہیں

تڑپ رہی ہے مری روح جسم خاکی میں
ترے سوا مجھے اک دم بھی اب قرار نہیں

نہ طعنہ زن ہو مری بےخودی پہ اے ناصح
میئں کیا کہوں کہ مرا اس میں اختیار نہیں

مثالِ آئینہ ہے دل کہ یار کا گھر ہے
مجھے کسی سے بھی اس دہر میں غبار نہیں

جو دل میں آئے سو کہہ لو کہ اس میں بھی ہے لطف
خدا کے علم میں گر ہم ذلیل و خوار نہیں

ہوا وہ پاک جو قدوس کا ہوا شیدا
پلید ہے جسے حاصل یہ افتخار نہیں

وہ ہم کہ عشق میں پائے ہیں لطفِ یکتائی
ہمارا دوست نہیں کوئی غمگسار نہیں

چڑھے ہیں سینکڑوں ہی سولیوں پہ ہم منصور
ہمارے عشق کا اک دار پر مدار نہیں

یونہی کہو نہ ہمیں لوگو! کافر و مرتد
ہمارے دل کی خبر تم پہ آشکار نہیں

امامِ وقت کا لوگو کرو نہ تم انکار
جو جھوٹے ہوتے ہیں وہ پاتے اقتدار نہیں

دل و جگر کے پرخچے اڑے ہوئے ہیں یاں
اگرچہ دیکھنے میں اپنا حال زار نہیں

جگا رہے ہیں مسیؑحا کبھی سے دنیا کو
مگر غضب ہے کہ ہوتی وہ ہوشیار نہیں

مقابلہ میں مسیؑحِ زماں کے جوا ٓئے
وہ لوگ وہ ہیں جنہیں حق سے کچھ بھی پیار نہیں

کلامِ پاک بھی موجود ہے اسے پڑھ لے
ہمارا تجھ کو جو اے قوم اعتبار نہیں

کبھی تو دل پہ بھی جاکر اثر کرے گی بات
سنائے جائیں گے ہم، تم کہو ہزار" نہیں"

کروڑ جاں ہو تو کردوں فدا محمد ؐ پر
کہ اس کے لطف و عنایات کا شمار نہیں

اخبار بدر جلد 6۔ 7 اکتوبر 1907ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں