کلام
محمود صفحہ10۔12
6۔ وہ قصیدہ میں کروں وصفِ مسیحا
میں رقم
وہ قصیدہ میں کروں وصفِ مسیحا میں رقم
فخر سمجھیں جسے لکھنا بھی مرے دست و
قلم
میں وہ کامل ہوں کہ سن لے مرے اشعار
کو گر
پھینک دے جام کو اور چومے مرے پاؤں
کو جم
میں کسی بحر میں دکھلاؤں جو اپنی تیزی
عرفی و ذوق کے بھی دست و زباں ہوویں
قلم
کھولتا ہوں میں زباں وصف میں اس کے
یارو
جس کے اوصاف حمیدہ نہیں ہوسکتے رقم
جان ہے سارے جہاں کی وہ شہ ِوالا جاہ
منبع ِجود وسخا ہے وہ مرا ابر کرم
وہ نصیبا ہے ترا اے مرے پیارے عیسیٰؑ
فخر سمجھیں تری تقلید کو ابن مریمؑ
فیض پہنچانے کا ہے تو نے اٹھایا بیڑا
لوگ بھولے ہیں ترے وقت میں نامِ حاتم
تاج اقبال کا سر پر ہے مزین تیرے
نصرت و فتح کا اڑتا ہے ہوا میں پرچم
شان و شوکت کو تری دیکھ کے حساد و شریر
خون دل پیتے ہیں اور کھاتے ہیں وہ غصہ
و غم
کونسا مولوی ہے جو نہیں دشمن تیرا
کون ہے جو کہ یہودی علماء سے ہے کم
کونسا چھوڑا ہے حیلہ تیرا رسوائی کا
ہر جگہ کرتے ہیں یہ حق میں ترے سبّ
و شتم
پر تری پشت پہ وہ ہے جسے کہتے ہیں خدا
جس کے آگے ہے ملائک کا بھی ہوتا سر
خم
جب کیا تجھ پہ کوئی حملہ تو کھائی ہے
شکست
مار وہ ان کو پڑی ہے کہ نہیں باقی دم
مٹ گیا تیری عداوت کے سبب سے پیارے
کوئی لیتا نہیں اب دہر میں نام ِآتھم
بھنبھناہٹ جو اُنھوں نے یہ لگا رکھی
ہے
چیز کیا ہیں یہ مخالف تو ہیں پشہ سے
بھی کم
کر نہیں سکتے یہ کچھ بھی ترا اے شاہ
جہاں
ہفت خواں بھی جو یہ بن جائیں تو تُو
ہے رستم
چرخِ نیلی کی کمر بھی ترے آگے ہے خم
فیل کیا چیز ہیں اور کس کو ہیں کہتے
ہیں ضیغم
جس کا جی چاہے مقابل پہ ترے آدیکھے
دیکھنا چاہتا ہے کوئی اگر ملکِ عدم
حیف ہے قوم ترے فعلوں پر اور عقلوں
پر
دوست ہیں جو کہ ترے اُن پہ تو کرتی
ہے ستم
ہائے اُس شخص سے تو بغض و عداوت رکھے
رات دن جس کو لگا رہتا ہے تیرا ہی غم
نام تک اُس کا مٹا دینے میں ہے تُو
کوشاں
اس کا ہر بار مگر آگے ہی پڑتا ہے قدم
دیکھ کر تیرے نشانات کو اے مہدیٔ وقت
آج انگشت بدنداں ہے سارا عالم
مال کیا چیز ہے اور جاں کی حقیقت کیا
ہے
آبرو تجھ پہ فدا کرنے کو تیار ہیں
ہم
غرق ہیں بحر ِمعاصی میں ہم اے پیارے
مسیح ؑ
پار ہوجائیں اگر تُو کرے کچھ ہم پہ
کرم
آج دنیا میں ہر اک سُو ہے شرارت پھیلی
پھنس گئی پنجۂ شیطاں میں ہے نسلِ آدم
اب ہنسی کرتے ہیں احکام الہٰی سے لوگ
نہ تو اللہ ہی کا ڈر ہے نہ عقبیٰ کا
غم
کوئی اتنا تو بتائے یہ اکڑتے کیوں ہیں؟
بات کیا ہے کہ یہ پھرتے ہیں نہایت خرّم
بات یہ ہے کہ یہ شیطاں کے فسوں خوردہ
ہیں
ان کے دل میں نہیں کچھ خوفِ خدائے عالم
اپنی کم علمی کا بھی علم ہے کامل اُن
کو
ڈالتے ہیں انہیں دھوکے میں مگر دام
و درم
صاف ظاہر ہے جو آتی ہے یہ آواز ِصریر
ان کے حالات کو لکھتے ہوئے روتا ہے
قلم
یاں تو اسلام کی قوموں کا ہے یہ حالِ
ضعیف
اور واں کفر کا لہراتا ہے اونچا پرچم
لاکھوں انسان ہوئے دین سے بے دیں ہیہات
آج اسلام کا گھر گھر میں پڑا ہے ماتم
کفر نے کردیا اسلام کو پامال غضب
شرک نے گھیر لی توحید کی جا۔وائے ستم
ایسی حالت میں بھی نازل نہ ہو گر فضلِ
خدا
کفر کے جبکہ ہوں اسلام پہ حملے پیہم
جس طرف دیکھئے دشمن ہی نظر آتے ہیں
کوئی مونس نہیں دنیا میں نہ کوئی ہمدم
دین ِاسلام کی ہر بات کو جھٹلا ئیں
غوی
احمد ؐ ِپاک کے حق میں کریں سبّ و شتم
عاشق احمدؐ و دلدادۂ مولائے کریم
حسرت و یاس سے مرجائیں بہ چشمِ پُر
نم
پر وہ غیور خدا کب اسے کرتا ہے پسند
دینِ احمدؐ ہو تباہ اور ہو دشمن خرّم
اپنے وعدے کے مطابق تجھے بھیجا اس نے
امتِ خیرِ رسل پر ہے کیا اُس نے کرم
تیرے ہاتھوں سے ہی دجال کی ٹوٹے گی
کمر
شرک کے ہاتھ ترے ہاتھ سے ہی ہووینگے
قلم
دَجل کا نام و نشاں دہر سے مٹ جائے
گا
ظلِ اسلام میں آجائے گا سارا عالم
جو کہ ہیں تابع ِشیطاں نہیں اُن کی
پروا
ایک ہی حملے میں مٹ جائیگا سب اُن کا
بھرم
جبکہ وہ زلزلہ جس کا ہوا ہے وعدہ
ڈال دے گا تیرے اعداء کے گھروں میں
ماتم
تب انہیں ہوگی خبر اور کہیں گے ہیہات
ہم تو کرتےرہے ہیں اپنی ہی جانوں پہ
ستم
تیری سچائی کا دنیا میں بجے گا ڈنکا
بادشاہوں کے ترے سامنے ہونگے سَر خم
تیرے اعداء جو ہیں دوزخ میں جگہ پائیں
گے
پر جگہ تیرے مریدوں کی تو ہے باغِ ارم
التجا ہے میری آخر میں یہ اے پیارے
مسیحؑ
حشر کے روز تو محمود کا بنیو ہمدم
اخبار بدر ۔ جلد 5۔ 6ستمبر1906ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں