کلام
محمود صفحہ108
61۔ میرے مولیٰ مری بگڑی کے بنانے والے
میرے مولیٰ مری بگڑی کے بنانیوالے
میرے پیارے مجھے فتنوں سے بچانیوالے
جلوہ دکھلا مجھے وہ چہرہ چھپانے والے
رحم کر مجھ پہ او مُنہ پھیر کے جانے
والے
مَیں تو بدنام ہوں جس دم سے ہواہوں
عاشق
کہہ لیں جو دل میں ہو الزام لگانے والے
تشنہ لب ہوں بڑی مدت سے خدا شاہد ہے
بھر دے اک جام تُو کوثر کے لُٹانےوالے
ڈالتا جا نظرِ مِہر بھی اس غم گیں پر
نظرِ قہر سے مٹی میں ملانے والے
کبھی تو جلوۂ بے پردہ سے ٹھنڈک پہنچا
سینہ و دل میں مرے آگ لگانے والے
تجھ کو تیری ہی قسم کیا یہ وفاداری
ہے
دوستی کر کے مجھے دل سے بھُلانے والے
کیا نہیں آنکھوں میں اب کچھ بھی مروت
باقی
مجھ مصیبت زدہ کو آنکھیں دکھانے والے
مجھ کو دکھلاتے ہوئے آپ بھی رہ کھو
بیٹھے
اے خضرکیسے ہو تم راہ دکھانے والے
ڈھونڈتی ہیں مگر آنکھیں نہیں پاتیں
اُن کو
ہیں کہاں وہ مجھے روتے کو ہنسانے والے
ساتھ ہی چھوڑ دیا سب نے شبِ ظلمت میں
ایک آنسو ہیں لگی دل کی بجھانے والے
تا قیامت رہے جاری یہ سخاوت تیری
او مرے گنجِ معارف کے لٹانے والے
رہ گئے منہ ہی ترا دیکھتے وقتِ رحلت
ہم پسینہ کی جگہ خون بہانے والے
ہو نہ تجھ کو بھی خوشی دونوں جہانوں
میں نصیب
کوچۂ یارکے رستہ کے بھلانے والے
ہم تو ہیں صبح و مسا رنج اُٹھانے والے
کوئی ہوں گے کہ جو ہیں عیش منانے والے
مجھ سے بڑھ کر مرا فکر تجھے دامن گیر
تیرے قربان مرا بوجھ اُٹھانے والے
اخبار الفضل جلد 10 ۔27نومبر 1922ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں